کسی جماعت نے اتحاد کرنا ہے تو کھلے عام کرے، عدالت عظمیٰ
اسلام آباد: جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ سیاسی جماعتوں کے اتحاد سے متناسب نمائندگی پر فرق نہیں پڑتا، کسی جماعت نے اتحاد کرنا ہے تو کھلے عام کرے۔
چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کی۔ وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ ووٹرز کے لیے ضابطہ اخلاق جمع کرواچکے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ سینیٹ کے قیام کا مقصد تمام صوبوں کی یکساں نمائندگی ہے، پارلیمانی نظام میں دونوں ایوان کبھی اتفاق رائے سے نہیں چلتے، لازمی نہیں کہ وفاق میں حکومت بنانے والی جماعت کی صوبے میں بھی اکثریت ہو، اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد سے بھی سینیٹ میں نشستوں کا تناسب بدل سکتا ہے، متناسب نمائندگی کے نکتے پر تفصیلی موقف دوں گا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ متناسب نمائندگی کا ذکر آرٹیکل 51 اور ارٹیکل 59 دونوں میں ہے، سیاسی جماعتوں کے اتحاد سے بھی متناسب نمائندگی پر فرق نہیں پڑتا، کسی جماعت نے اتحاد کرنا ہے تو کھلے عام کرے۔
رضا ربانی نے کہا کہ متناسب نمائندگی کی عدالت جو تشریح کررہی ہے وہ آئیڈیل حالات والی ہے، سیاسی معاملات کبھی بھی آئیڈیل نہیں ہوتے، پنجاب میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق کا اتحاد ہے، پی ٹی آئی نے سینیٹ میں ق لیگ کو بھی سینیٹ نشست دی ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ سینیٹ میں سیاسی جماعت کی نمائندگی صوبے میں تناسب کے مطابق ہونی چاہیے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کئی بار سیاسی جماعتیں دوسرے صوبے کی جماعتوں سے بھی ایڈجسٹمنٹ کرتی ہیں، بین الصوبائی اتحاد بھی ہو تو خفیہ رکھنا کیوں ضروری ہے؟۔
رضا ربانی نے جواب دیا کہ ہارس ٹریڈنگ اور سیاسی اتحاد میں فرق ہے، سیاسی اتحاد عام طور پر خفیہ ہی ہوتا ہے، کوئی انفرادی شخص سینیٹ رکن بننا چاہے تو ہارس ٹریڈنگ ہوسکتی ہے۔
عدالت نے صدارتی ریفرنس پر سماعت پیر تک ملتوی کردی۔