تھر دھرتی کا مور

سندھ دھرتی کے عظیم ہیرو روپلو کولہی کے یوم وفات پر خصوصیی تحریر

نثار نندوانی

انگریزوں کے سامراجی قبضے اور ظلم وبربریت کے خلاف سندھ کے کئی جوان اٹھے جنہوں نے انگریزوں کی نیندیں حرام کر رکھی تھیں۔ ان میں بھگت سنگھ ، ہیموں کالانی، سورھیہ بادشاہ پیر پگارا اور تھر کے پہاڑ کارونجھر کی ایک چٹان روپلو کولہی بھی شامل تھا۔ گزشتہ روز اس دلیر کی برسی تھی۔ 

روپلو کولہی سے اس کی بیوی رنگو بائی نے کہا تھا کہ روپلا، مجھے تیرے سینے پر گولیاں درکار ہیں۔ اگر پیٹھ پر بھاگتے ہوئے گولیاں کھائیں تو مجھے میری سہلیاں طعنے دیں گی۔ اس طرح اس بہادر جوان نے اپنی جان آزادی کے نام لکھوا کر ہمیشہ تھر کے صحرا میں امر ہو گیا۔ اس کی بیوی کی باتوں کو لوک گیت کی شکل میں لوگوں کے من تک راستہ مل گیا۔ آئیں اس آزادی کے متوالے کو خراج تحسین پیش کریں۔

"کھڑی نیم کے نیچے ہوں تو ھیکلی، جاتورو باٹورو مانا چھانی مانی دیکھ لے۔”

ترجمہ: ﻣﯿﮟ ﻧﯿﻢ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺍﮐﯿﻠﯽ ﮐﮭﮍﯼ ﮨﻮﮞ۔ ﺍﮮ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﻣﯿﺮﮮ ﮬﻢ ﺳﻔﺮ اے ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﻏﻮﺭ ﺳﮯ ﺩﯾﮑھ ﻟﮯ۔

یہ صحرائے تھر کی مقامی زبان ڈھاڈکی کا گیت ہے، جو اپنے اندر ایک خاص موسم خاص وقت خاص تہذیب اور خالص عشق لئے صدیوں سے جاوداں ہے۔ اس گیت کا پس منظر کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ جب روپلو کولھی کو انگریز پکڑ کے دار پر لٹکانے کے لیئے لے گئے تو ان سے آخری بار پوچھا گیا کہ ہم آپ کو چھوڑ سکتے ہیں، زندگی بخش سکتے ہیں، صرف ہمیں یہ بتا دو کہ آپ کا ٹھاکر راجپوت مُکھیہ کہاں روپوش ہے؟ ہمیں اس کا ٹھکانہ بتاؤ۔ مگر کوہلو ایک مظبوط راجپوت وطن پرست ایمان دار وفادار صحرائی شیر تھا، ایک لفظ نا بولا۔ اتنے میں روپلو کولھی کی شریک حیات تھر پارکر کی سرسوتی رنگو بائی کی آواز آتی ہے کہ روپلا اگر تم نے انہیں کچھ بتایا تو تھر پارکر کی کولہنیاں مجھے طعنے دیں گی۔ مجھے آئے دن کوسیں گی کہ وہ دیکھ غدار کی بیوی۔ میں تیرا مرا ہوا منہ تو دیکھ سکتی ہوں، اپنے آپ کو ودھوا تو قبول کر سکتی ہوں، لیکن ایک غدار کی بیوی نہیں۔

روپلو کے حوصلے بلند ہوئے، زبان پر اور بڑا تالا لگا، رسی کھینچی گئی، روپلو درخت کی شاخ میں لٹکا رہا سانس جانے تک۔ شریک حیات کا سُرخ سلام اُٹھتا ہے اور روپلو صدیوں تک امر ہو جاتا ہے۔ اب تھر میں یہ رسم ٹھہری کہ سر کا سائیں گھر سے نکلتا تھا تو سُندری نیم کے نیچے کھڑی ہوکر لوک گیت گُنگناتی تھی: کھڑی نیم کے نیچے ہوں تو ھیکلی۔۔ جاتو ڑا بٹاڑو ماناں چھنے مانے دیکھ لے۔ اس گیت کو سندھ کی کویل مائی بھاگی نے گا کر ہمیشہ کے لیے امر کردیا ہے۔ تھر ہو یا سندھ کا کوئی اور علاقہ، یہ گیت آج بھی سندھ بھر کے لوگوں کے دلوں کی دھڑکن بن چکا ہے۔

رنگو بائی عمر بھر اس نیم کے پیڑ نیچے یہ گیت گنگاتی رہی اور اپنے قبیل کی عورتوں کے حوصلے کارونجھر پہاڑ جیسے بلند اور مظبوط کرتی رہی۔ تھر پارکر کی سانولی سنولی ناریاں سچ میں ہمت عزم اور وفا کا پہاڑ ہی ہیں۔ محبوب کے لئے دنیا کی شگفتہ ترین مخلوق اور غیر کے لئے آگ۔ جھر مر جھر مر مھولا برسے، پون ھولو کھاوے، مور پپیہا میٹھا بولیں کوئل شور مچاوے۔۔ ہوں تھانا پچھاں چھیل بھمریا ہیکلی جاتورو باٹورو مانا چھانی مانی دیکھ لے، یعنی، "ﺟﮭﺮ ﻣﺮ ﮐﺮﺗﯽ ﺳﺎﻭﻥ ﮐﯽ ﭨﭙﭩﭙﺎﺗﯽ ﺑﻮﻧﺪﯾﮟ ﺑﺮﺱ ﺭہی ﮨﻮﮞ، ﮬﻮﺍ ﮐﮯ ﺟﮭﻮﻧﮑﮯ ﺟﮭﻮﻟﮯ کھا ﺭہے ﮨﻮﮞ، ﻣﻮﺭ ﺍﭘﻨی ﻣﺪھﺮ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﮯ ﻣﺎﺣﻮﻝ ﺳﺎﺯﮔﺎﺭ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ، پپیہا ﺑﺎﺭﺵ ﮐﯽ ﺍﻣﯿﺪ دل ﻣﯿﮟ ﻟﯿﮯ ﻣﯿﭩﮭﮯ ﺑﻮﻝ ﺑﻮﻝ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ، ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﻞ ﮐﯽ مدھر ﺁﻭﺍﺯ ہو، ﻣﯿﮟ ﺍﮐﯿﻠﯽ ﺗﻢ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺘﯽ ﮨﻮﮞ ﺍﮮ ﻣﯿﺮﮮ ہﻢ ﻧﻔﺲ، ﺍﮮ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﺴﺎﻓﺮ، ﻣﺠﮭﮯ ﺍﯾﮏ ﺟﮭﻠﮏ ﺩﯾﮑھ ﻟﮯ۔” ﺍُﻭﭼﯽ ﻣﯿﮍﮬﯽ ﺍُﺟﮍﯼ ﺟﻨﮭﻦ ﻣﯿﮟ ﻟﻮﻧﺒﺎﮌﯼ ﮐﮭﺎﭦ، ﺩﮬﻦ ﻣﯿﮟ ﮈﮬﻮﻟﻮ ﭘﻮﮈﮬﯿﺎ ﺳُﮕﻦ سیالے دی رات، ہوں تھانا پچھاں چھیل بھمریا ہیکلی، جاتورو باٹورو مانا چھانی مانی دیکھ لے۔۔۔ یعنی، ﺍﻭﻧﭽﺎ ﻣﯿﺮﺍ ﻣﺎﮌﯼ ﻧﻤﺎ ﮔﮭﺮ ﮨﻮ، ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺟﮭﻮﻟﮯ ﮐﮭﺎﺗﯽ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﯽ لہروں ﺟﯿﺴﯽ ﭼﺎﺭﭘﺎﺋﯽ ہو، ﺳﺮﺩﯾﻮﮞ ﮐﯽ ﺳﺮﺩ ﺍﻭﺭ ﺗﺎﺭﻭﮞ ﺳﮯ ﺑﮭﺮﯼ ﺭﺍﺗﯿﮟ ﮨﻮﮞ، ﺍﻭﺭ ﺩﻟﻔﺮﯾﺐ ﺳﻤﺎں۔ ﺑﺲ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﮨﻮ، ﺟﺐ ﮨﻢ ﻣﻠﯿﮟ ﺗﻮ ﮔزﺭﺗﮯ لمحے ﺗﮭﻢ ﺟﺎﺋﯿﮟ۔ ﻣﯿﮟ ﺍﮐﯿﻠﯽ ﻧﯿﻢ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﮐﮭﮍﯼ ﮨﻮ ﮐﺮ ﮐﮩ ﺭﮨﯽ ﮨﻮﮞ، ﺍﮮ ﻣﯿﺮﮮ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﻏﻮﺭ ﺳﮯ ﺩﯾﮑھ لے۔

آج میں بے بس کوہلیوں اور لاچار روپلوؤں کے بارے لکھنا چاہتا ہوں، جو انگریز سے تو جیت گئے مگر وڈیروں کے ہاتھوں مارے گئے۔ اپنی عزتیں نا بچا سکے، آج بھی ان پر مظالم ڈھائے جاتے ہیں۔ کچھ سیاست دان، کچھ وڈیرے، کچھ ان ہی کے قوم کی اونچی ذات والے آج بھی ان کی بچیوں کی عزت تار تار کرتے ہیں۔ میں دکھی ہوں، میری مائی بھاگی دکھی ہے، میری رنگو بائی دکھی ہے، میرے آنسو میرا درد میرے تھر کے مظلوم بھائیوں کے ساتھ ہیں۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔