صورتیں جدا جدا، لہو کا رنگ ایک

دعا ء بتول

 کچھ عرصہ پہلے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو میری نظروں سے گزری۔ اس میں ایک سیاہ فام بچی کسی سیلون میں اپنے بال بنوا رہی تھی ۔ بال بنانے کے دوران خود کو دیکھتے ہوئے وہ کہتی ہے کہ میں کتنی بدصورت ہوں۔ یہ سن کر ہیئر ڈریسر اسے فورا ٹوکتی ہے، اور اس کو کہتی ہے کہ تم بہت خوبصورت ہو۔ یہ سننا اس بچی کے لئے اتنا غیر یقینی ہوتا ہے کہ وہ رو پڑتی ہے۔ شاید ہوش سنبھالتے ہی اس کے ذہن میں یہ ڈال دیا گیا ہو کہ وہ معاشرے کے طے کردہ خوبصورتی کے سانچے میں پوری نہیں اتری۔

بات کروں اپنے آس پڑوس کی میں نے اکثر یونیورسٹی میں یہ جملے سنے ہیں کہ دیکھو اس لڑکی نے کیسا رنگ پہنا ہے، دیکھو اس کی لپسٹک اس کی رنگت سے مطابقت نہیں رکھتی، اسے دیکھو اس میں تو ذرا بھی ڈریسنگ سینس  نہیں۔ جب بات آتی ہے رشتے کرنے کی تب بھی گوری رنگت کو ترجیح دی جاتی ہے۔
 بات صرف رنگت کی نہیں ہے۔ مشرق ہو یا مغرب ہر جگہ نسلی و مذہبی، اور بھی بہت سے امتیازات وجود رکھتے ہیں۔ جن کی بنا پر امریکہ میں آئے روز سیاہ فام افراد مارے جاتے ہیں اور یورپ میں مسلمانوں کو ان کی مرضی سے اوڑھنے پہننے کی اجازت نہیں۔
جب ہم آزاد پیدا ہوئے ہیں تو کیوں ہمیں ایک دوسرے پر ایسے ریمارکس دیتے ہیں اور پابندیاں عائد کرتے ہیں جن کی کوئی منطقی حیثیت ہی نہیں۔ ہاں لامحالہ ان سے اور مشکلات ضرور پیدا ہوتی ہے۔ بر عکس اس کے کہ ہم قدرت کے اس اقسام و تقسیم کے نظام کو قبول کریں اور ایک دوسرے سے مستفید ہوں۔ ہم کیوں ایک دوسرے کے لئے تکلیف کا باعث بنتے ہیں؟
 جس طرح ابھرتے اور ڈھلتے سورج کی خوبصورتی کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا، دن اور رات کی انفرادی اہمیت کو نہیں جھٹلایا جاسکتا۔ بالکل اسی طرح لوگوں کو چھوٹے بڑے یا اونچے نیچے درجوں میں تقسیم کرنا سراسر بے معنی ہے۔
 ہمیں چاہیے کہ کسی بھی فرد کی اس کی شکل و صورت، رنگ، نسل ،ذہنی صلاحیت، مذہب، فرقہ، خصوصیات،  کی بنا پر تضحیک و تذ لیل کسی   صورت نہ کی جائے۔
 ہم سب آزاد پیدا ہوئے ہیں اور ہم سب عزت اور تحفظ کے ساتھ زندگی کا حق رکھتے ہیں۔ ایک دوسرے کے عقائد کا احترام کیا جائے۔ کیونکہ گروہوں میں بٹ کر ہمیں صرف تنازعات ہی مل سکتے ہیں سکون نہیں۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔