شبِ برأت: ایک افضل رات
ایک عام انسان کی زندگی میں مذہب کی اہمیت و حیثیت بہت زیادہ ہوتی ہے، مذہب سے انسان کو ذہنی سکون میسر آتا ہے۔ اُسے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ کوئی ہے جو میری باتوں کو سُن رہا ہے، میرے درد کی دوا کر رہا ہے، کوئی ہے جو میری تنہائیوں میں بھی مجھے اکیلا نہیں چھوڑتا۔ دینِ اسلام چونکہ دینِ فطرت ہے اسی لیے عام انسانوں کی اس دین سے ذہنی ہم آہنگی اور فطری میلان بھی بہت زیادہ ہے۔ اسلام امن، محبت اور بھائی چارگی کا دین ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری حیاتِ طیبہ اس بات کی گواہ ہے کہ وہ تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر تشریف لائے اور قرآن بھی ہمیں یہی بتاتا ہے۔
بات کرتے ہیں شعبان کے مہینے کی تو یہ مہینہ ویسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بے حد پسند تھا، روایتوں میں آتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مہینے خصوصاََ روزوں کا اہتمام کیا کرتے، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہہ فرماتی ہیں کہ
’میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے اہتمام کے ساتھ رمضان المبارک کے علاوہ پورے مہینے کے روزے رکھے ہوں اور میں نے نہیں دیکھا کہ آپ ﷺ نے کسی مہینے میں شعبان سے زیادہ نفلی روزے رکھے ہوں‘ (صحیح بخاری)
بعض روایتوں میں آتا ہے کہ اس روزنامہ اعمال اللہ تعالیٰ کی طرف اٹھائے جاتے ہیں، حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’شعبان کا مہینے رجب اور رمضان کے درمیان کا مہینہ ہے، لوگ اس کی فضیلت سے غافل ہیں، حالاں کہ اس مہینے میں بندوں کے اعمال پروردگارعالم کی جانب اٹھائے جاتے ہیں،لہٰذا میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل بارگاہِ الٰہی میں اس حال میں پیش ہو کہ میں روزہ دار ہوں۔ (شعب الایمان حدیث ۳۸۲۰ فتح الباری)
اس کے علاوہ مسلمانوں کی اکثریت کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ اس رات مرنے والوں کی فہرست ملک الموت کے حوالے کی جاتی ہے، بے شمار لوگوں کی مغفرت بھی اس رات کی جاتی ہے، صبح تک اللہ تعالیٰ کی ندا مسلماںوں کے لیے آتی ہے کہ کوئی ہے جس کی میں مغفرت کروں، کیا کوئی مجھ سے رزق کا طالب ہے، کوئی کسی مصیبت یا بیماری میں مبتلا ہے تو اُسے عافیت عطا کروں۔
اگرچہ یہ سارے اختلافی مسائل ہیں اور مسلمانوں کے مختلف فرقے اس پر اپنے اپنے دلائل دے کر اسے صحیح اور غلط ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن ہم اس بحث میں نہیں جاتے۔ ایک عام انسان کی طرح ہم روزانہ زندگی میں بے حد گناہ کرتے ہیں، بڑوں کی نافرمانی اور والدین کا دل بھی دکھا دیتے ہیں، عبادت میں کوتاہی کے مرتکب بھی ہوجاتے ہیں۔
اس ایک رات کو اگر مسلمانوں کی اکثریت افضل سمجھ کر عبادت کرلیتی ہے تو اس میں کیا حرج ہے؟ جہاں عبادت ہوتی ہے وہاں رحمت کا نزول ہوتا ہے۔ اس رات مسلمان اپنے پیاروں کی قبر پر حاضری دیتے ہیں اور اللہ سے ان کی مغفرت کے سُوالی ہوتے ہیں۔ اپنے عزیزوں کی قبروں پر جا کر فاتحہ پڑھنا اور ان کے نام سے غریبوں کو کھانا کھلانا، اُن میں تحائف تقسیم کرنا کس قدر بہترین عمل ہے۔ جن کے بزرگ زندہ ہیں اُن کے ہاتھ چومنا، اُن کی دعائیں لینا اور گلے شکوے مٹا کر کر ایک دوسرے کو معاف کردینا کتنا پاکیزہ عمل ہے۔
کچھ چیزیں آپ کے کلچر اور روایت کا حصہ بن جاتی ہیں اور اُس روایت سے اسلام کی اصل شکل پر بھی کوئی فرق نہیں پڑتا، اس لیے اس رات اس بحث میں پڑے رہنے سے بہتر ہے خوب عبادت کر کے اپنے رب کو راضی کرلیا جائے۔ اگر آپ کے پیارے حیات ہیں خصوصاََ والدین تو اُن سے معافی مانگیں، اُن کے ہاتھ چومیں اور اُن کی دعائیں لیں۔ اگر آپ کے والدین یا بزرگ حیات نہیں تو اُن کی قبروں پر جا کر فاتحہ پڑھیں اور اس رات ان کو اپنی خاص دعاوُں میں یاد رکھیں۔ غریبوں میں کھانا اور تحائف تقسیم کریں۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو، سب نے اس دنیا سے رخصت ہو جانا ہے بس نام رہے گا اُس پاک ذات کا جو سب سے بڑھ کر تعریف کا مستحق ہے!