قانون کا ڈنڈا اور ملکی ترقی

محمد عبدہ

ملکوں کی ترقی میں بہت سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ کہیں معدنیات، کہیں تیل، کہیں اجناس، لیکن کبھی کبھی یہ تمام چزیں ثانوی حیثیت اختیار کرجاتی ہیں۔ آئیے آج آپ کو ایک ایسے ہی ملک کے بارے میں بتاتے ہیں جہاں کی ترقی کا راز وہاں کے زیرِ زمین یا زمین کے اوپر پائے جانے والے خزانوں میں نہیں۔ 

جنوبی کوریا رقبے میں ہمارے صوبے پنجاب سے آدھا ہے اور اس کی آبادی پنجاب کی آدھی سے بھی کم ہے۔ افرادی قوت زیرو ہے۔ کوریا میں تیل گیس لوہا سمیت کسی قسم کی معدنیات پیدا نہیں ہوتیں، حتی کہ اپنی ضرورت کی سبزی اور پھل بھی باہر سے منگوانا پڑتا ہے۔ اور انتظام ایسا اعلی ہے کہ تیل گیس بجلی پھل سبزی آج تک کبھی ختم ہوئے ہیں نہ کبھی کم ہوئے ہیں، نہ ہی کبھی اچانک مہنگے ہوئے ہیں۔ ہر چیز ہر وقت عام دستیاب اور امیر غریب کی پہنچ میں ہوتی ہے۔

کسی قسم کی معدنیات نہ ہونے اور افرادی قوت بھی کم ہونے کے باوجود کوریا دنیا کے دس امیر ترین ملکوں میں سے ایک ہے۔ کوریا کی بیس بڑی پرائیویٹ کمپنیاں اتنی امیر ہیں کہ ہر ایک کا سالانہ بجٹ پاکستان کے مجموعی بجٹ سے بھی کئی گنا زیادہ ہے۔ سام سنگ، ہنڈائی، کیا، ڈائیوو، پوسکو کو تو چھوڑیں 12 ویں بڑی کمپنی لوتے کا بجٹ 120 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔

کوریا میں دیہاڑی پر کام کرنے والے مزدور کی روزانہ اجرت پاکستانی 15000 روپے کے برابر بنتی ہے۔ یہاں مزدور ایک دن کی کمائی سے 80 لیٹر پٹرول، یا 55 لیٹر دودھ یا 25 کلو چکن یا 10 کلو مٹن یا 20 کلو سیب خرید سکتاہے۔ گھر میں دن رات AC چلائیں تو بجلی کا بل 7000 روپے سے زیادہ نہیں آتا۔ 2 دن کی کمائی سے ایک فیملی پورے ماہ کی خوراک خریدسکتی ہے۔ ایک ماہ کی کمائی سے چمچ پلیٹ سے لیکر فریج ٹی وی اے سی تک گھر کی ہر چیز خرید سکتا ہے۔ یہاں تک کہ مزدور اپنی پندرہ دن کی کمائی سے کار تک خرید سکتا ہے۔

ابھی چند دن پہلے ہمارے وزیراعظم نے کہا تھا پاکستان سب سے سستا ملک ہے، اب پاکستانی مزدور اپنی روزانہ کمائی سے کیا کچھ کر سکتا ہے؟ اسے کوریا سے مقابلہ کرکے دیکھ لیں کہ کون سا ملک سستا ہے۔ ‏کوریا نے ایک بار چند ارب لگا کر سب ادارے کمپیوٹر سے منسلک کر دیئے تھے۔ اب پچھلے تیس سال سے کبھی مردم شماری نہیں ہوئی مگر سالانہ اور ماہانہ کتنی شادیاں اور طلاقیں ہوئیں، کتنی اموات ہوئیں اور کتنے بچے پیدا ہوئے، کتنے BA ، MA پاس ہوئے، کتنے بچے اسکول نہیں جارہے، یہ سب ہر شہر، ضلع، یونین کونسل تک کا ریکارڈ ہوتا ہے۔ یقین کریں ملک نہ تو معدنیات سے ترقی کرتے ہیں نہ افرادی قوت سے کرتے ہیں، نہ باتیں کرنے اور شور مچانے سے ترقی ہوتی ہے۔ ترقی صرف ایماندار اور مخلص قیادت سے بھی نہیں ہوتی۔ انصاف، سخت قانون اور اس پر سختی سے عمل نظر آنا چاہئیے۔ جس ملک میں قانون کا ڈنڈا نہیں چلتا وہاں کبھی ترقی کا پہیہ نہیں چلتا۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔