گم ہوتا کراچی: بھوپال ہاؤس ملیر کی مکین، شہزادی عابدہ سلطان (حصہ اول)
ریاست بھوپال کی انقلابی شہزادی کی داستانِ حیات، جس نے زندگی کو حقیقی معنی عطا کیے
برصغیر پاک و ہند میں خواتین نے اپنے عزم و ہمت سے جو نام پیدا کیا، وہ شاید دنیا کے کسی دوسرے خطے کی خواتین کے حصے میں نہیں آسکا ہے۔ اس خطے کی باہمت اور حوصلہ مند خواتین میں ریاست بھوپال کی شہزادی عابدہ سلطان کا نام سرِ فہرست ہے۔
متحدہ ہندوستان کی مسلمان آزاد ریاست بھوپال کے نواب حمید اللہ خان کے ہاں 1913ء میں بیٹی کی ولادت ہوئی۔ دنیا اس بیٹی کو شہزادی عابدہ سلطان کے نام سے جانتی ہے۔ انہیں اس وقت عرف عام میں بیا حضور کہا جاتا تھا۔ شہزادی عابدہ سلطان نواب حمید اللہ خان کی تینوں بیٹیوں میں سب سے بڑی تھیں۔ اس وقت ریاست بھوپال کی نوابی شہزادی عابدہ سلطان کی دادی سلطان جہاں بیگم کے پاس تھی۔ بعد میں وہ اپنے بیٹے نواب حمید اللہ کے حق میں دست بردار ہوگئیں، اور شہزادی عابدہ سلطان پندرہ برس میں اپنے والد کی جانشیں مقرر ہوگئیں۔ ہندوستان بھر کی ریاستوں میں بھوپال واحد ریاست تھی، جہاں ایک صدی سے زائد عرصے تک بیگمات نے نہ صرف نوابی کی بلکہ ریاست کے امور اس طرح چلائے کہ اپنے حسن انتظام سے ثابت کیا کہ وہ ریاستی امور بخوبی چلانے کی اہل ہیں۔شہزادی عابدہ سلطان کی پرورش ان کی دادی سلطان جہاں بیگم نے کی تھی۔ سلطان جہاں بیگم ریاست بھوپال کی چوتھی اور آخری نواب تھیں، کیونکہ شہزادی عابدہ سلطان کی پیدائش کے وقت ان کی والدہ کی عمر صرف تیرہ برس اور والد، نواب حمید اللہ خان کی عمر صرف انیس برس تھی اور وہ اس وقت تک علی گڑی مسلم یونیورسٹی کے طالب علم تھے۔ اپنے والد کی حوصلہ افزائی اور اپنی محنت سے شہزادی عابدہ سلطان بہترین اسپورٹس گرل بن گئیں۔ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے رکھتے وہ انتہائی حوصلہ مند اور نڈر شخصیت میں ڈھل چکی تھیں۔
نواب بھوپال کی خاندانی روایات کے مطابق ہر بچے کی قرآنی تعلیم اور قرآن کے مطابق تربیت کا آغاز ٹھیک اس وقت کردیا جاتا، جب بچے کی عمر چار سال چار ماہ اور چار دن کی ہوجاتی۔ شہزادی عابدہ سلطان کی رسم بسم اللہ 1918ء کے پہلے روز ادا کی گئی۔ عابدہ سلطان کو فجر کی نماز سے کافی قبل جگا دیا گیا۔ نماز کی ادائیگی سے قبل انہیں چراغ کی روشنی میں قرآن سے کچھ آیات پڑھائی گئیں۔ دوران تربیت ناظرہ قرآن میں تجوید کی معمولی سی غلطی پر بھی انہیں سزا ملتی۔ چھ برس کی عمر تک انہوں نے قرآن حکیم کو عربی میں پڑھنا مکمل سیکھ لیا اور آٹھ سال کی عمر میں انہیں قرآن کا لفظی اردو ترجمہ بھی پڑھا دیا گیا۔ قرآن حکیم ناظرہ اور ترجمے کی تکمیل پر چالیس روز تک جشن منایا گیا، مہندی کی تقریب منعقد کی گئی اور شہزادی کو بیش قیمت تحائف بھی دیے گئے۔ شہزادی کو تمام تحائف میں پسند آنے والا واحد تحفہ خوبصورت گھوڑا تھا۔
تقریبات ختم ہونے کے بعد شہزادی کو انگریزی، فرانسیسی، فارسی اور عربی زبانوں کے ساتھ ساتھ تاریخ، جغرافیہ، ریاضی، قرآن، حدیث، فقہ اور اس وقت کھیلے جانے والے آؤٹ ڈور کھیل سکھانے کے لیے اتالیق مقرر کیے گئے۔ ان کی یہ تربیت فجر کی نماز سے شروع ہوتی اور رات نو بجے تک بلا تعطل جاری رہتی۔ عابدہ سلطان اپنے مزاج اور تربیت کی بدولت منہ زور نوجوان کا روپ دھار چکی تھیں اور ان کی دادی سلطان جہاں بیگم کے لیے پوتی کو تعلیم دینا کوئی آسان کام نہ تھا۔ شہزادی لڑکیوں والے کاموں میں ذرا برابر دلچسپی نہ لیتیں اور سخت جان آؤٹ ڈور کھیلوں کو ترجیح دیتیں۔ شہزادی نے محل کی دیکھ بھال پر مامور عملے، کلرکوں، دھوبیوں اور درزیوں کو بھی پولو کا کھیل سکھایا، جنہوں نے بعد میں پھوپال پولو ٹیم میں بھی بہترین کھیل پیش کیا، بعد از آں آل انڈیا پولو ٹیم میں بھی منتخب ہوئے۔ ہفتے وار تعطیل کے موقع پر ایک سنار اور ایک بڑھئی کی آمد بھوپال ہاؤس میں ہوتی۔ یہ دونوں افراد شہزادی عابدہ سلطان کو تجارتی رموز سکھاتے، ساتھ ہی وہ ایک اور استاد سے سیلف ڈیفینس کی غرض سے تلوار بازی اور نیزہ بازی بھی سیکھا کرتی تھیں۔ اس زمانے میں لڑکیوں کو بھی بچپن ہی سے گھڑ سواری سکھائی جاتی تھی اور شہزادی یہ موقع گنوانا نہیں چاہتی تھیں۔ ان کو گھڑ سواری کی تربیت دینے والے استاد کا نام چنار سنگھ تھا۔ چنار سنگھ شہزادی سے کافی مایوس تھا۔ ایک بار شہزادی نے انہیں دھوکا دینے کے لیے بہروپ بدلا اور سر پر جے پوری لہریا (مخصوص انداز کی پگڑی) باندھی، چھلانگ مار کر گھوڑے پر سوار ہوئیں اور گھڑ سواری کرتے چنار سنگھ کے پیچھے گھوڑا دوڑا دیا۔ ساتھ ہی نعرہ لگایا، "یا علی مدد، یاسین یا محمد، راجپوت کی لاج ہے۔” چنار سنگھ نے اسے روکنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوسکا۔ کچھ دیر گھوڑا سرپٹ دوڑانے کے بعد شہزادی چنار سنگھ کی نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ اپنی دادی کی غیر موجودگی میں شہزادی عابدہ سلطان گاڑی چلانا بھی سیکھا کرتی تھیں۔ چونکہ وہ چھوٹی تھیں اور ان کا قد اتنا نہیں تھا اور ان کا پاؤں بریک اور کلچ تک نہیں پہنچتا تھا، اس لیے انہوں نے گاڑی کی سیٹ کے کور پھاڑ ڈالے تھے تاکہ ان کے پاؤں پیڈل تک با آسانی پہنچ سکیں۔
نواب سلطان جہاں بیگم نے شہزادی اور ان کی دو بہنوں کی پرورش کفایت شعاری سے کی تھی، سلطان جہاں بیگم، جنہیں خاندان میں سرکار اماں کے نام سے پکارا جاتا تھا، ان کا جیب خرچ ءس وقت پانچ روپے ماہانہ ہوا کرتا تھا، جسے انہوں نے بچاکر شہزادی عابدہ سلطان کے لیے رکھ لیا ۔ اس رقم سے شہزادی عابدہ سلطان نے ایک سیکسوفون (مغربی آلہ موسیقی) خرید لیا، جبکہ پیانو، وائلن اور منڈولین ان کی دادی نے انہیں تحفے میں دے دیے۔ ان تمام آلاتِ موسیقی کا فائدہ یہ ہوا کہ شہزادی کو ان تمام آلاتِ موسیقی کے بجانے پر ملکہ حاصل ہوگیا۔ جب شہزادی تمام آلاتِ موسیقی بجانا سیکھ گئیں تو گھر کے ارکان نے اپنا موسیقی کا بینڈ بنالیا، اس بینڈ میں بانسری کے ساتھ شہزادی کی والدہ پیانو بجاتیں اور بقیہ افراد مینڈولین، وائلن، سیکسوفون، یہاں تک کہ باورچی خانے کے برتن تک بجایا کرتے تھے۔ شہزادی نے نہ صرف دستی بہکہ مشینوں کے ذریعے خط کتابت کے کورس بھی کیے ہوئے تھے ساتھ ہی بک کیپنگ اور اکاؤنٹنگ کا کام بھی سیکھ لیا تھا، یہاں تک کہ ان کی گاڑی میں مکینک کی ڈانگری بھی رکھی ملتی، جسے وہ انجن کی خرابی دور کرنے کے دوران پہن لیا کرتی تھیں۔
ہندوستان میں رہتے ہوئے انہوں نے فلائنگ کلب سے ہوائی جہاز اڑانے کی تربیت بھی حاصل کرلی تھی اور ان کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ وہ بہترین ہوا باز ثابت ہوں گی اور انہیں ہوا بازی کے کرتب دکھانے کی اجازت بھی مل جائے گی۔ انہیں ٹیپ ڈانسنگ میں بھی ملکہ حاصل تھا، اور ٹیپ ڈانس ماضی میں خاصا مقبول رہا ہے۔ شہزادی عابدہ سلطان نے اپنی والد اور ان کی ٹیم کے ساتھ پولو اور ٹینٹ پیگنگ کی تربیت دینی بھی شروع کردی۔ انہیں اسکواش کے کھیل کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ انہوں نے اسکواش کی تربیت چارلس ریڈ سے حاصل کی، جو نہ صرف خود اسکواش کے بہت اچھے کھلاڑی تھے، بلکہ انہوں نے دو بڑے کھلاڑیوں وارث خان اور مہابت خان کی تربیت بھی کی تھی۔ یہ چارلس ریڈ کی تربیت کا ثمر ہی تھا کہ شہزادی عابدہ سلطان آل انڈیا ویمنز اسکواش چیمئن بن گئیں۔ شاہی خاندان میں گھڑ سواری اور نشانہ بازی کی اہمیت برابر اہمیت کی حامل تھی۔ انھیں سکھایا گیا تھا کہ ہر پٹھان کو لازماً نشانے باز ہونا چاہیے۔ یہی وجہ تھی کہ شہزادی عابدہ سلطان کم عمری ہی میں ایئر گن سے کبوتروں اور چڑیوں کے شکار اور انھیں اٹھا کر لانے میں مہارت حاصل کرلی تھی۔
شہزادی عابدہ سلطان کی دادی بڑے فخر سے شہزادی کے شکار کا گوشت بڑے فخر سے مرادان خانے میں اپنے بیٹے کو بجھوایا کرتیں، یہ دکھانے کے لیے کہ شہزادی ایک بہترین شکاری ہے۔ رائفل کے استعمال کی اجازت ملنے سے قبل شہزادی فوجی مشقیں کیا کرتی تھیں اور انہوں نے ہمیشہ نشانہ بازی کے ٹیسٹ میں کامیابی حاصل کی۔ شہزادی ہر صبح فوجی ہدایات وصول کرتیں اور ان کی چھوٹی بہنیں ٹارگٹ رینج پر مشق کیا کرتیں۔ وقت گزرتا گیا اور وہ نشانہ بازی میں مشاق ہوتی گئیں۔ پھر انہوں نے اپنی نشانہ بازی کو جنگلوں میں جاکر آزمانا شروع کیا، جہان وہ اکثر ہرن، زامبر اور چیتے کو شکار کرتیں۔ یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک انہوں نے شیر کا شکار شروع نہ کردیا۔ شہزادی عابدہ سلطان کسی بھی چیز سے خوف نہیں کھاتی تھیں، یہاں تک کہ اپنی گولی سے زخمی ہونے والے شیر سے بھی نہیں۔ انہوں نے بیس سال کے دوران 73 شیروں کا شکار کیا۔ چکلوڈ نامی شکار گاہ نواب حمید اللہ خان کی پسندیدہ تھی۔ شہزادی عابدہ سلطان گھوڑے کی پشت پر سوار ہوکر چکلوڈ پہنچتیں، ان کے ساتھ ان کے والد اور عملے کے دیگر افراد بھی ہوتے تھے۔ چاندنی راتوں میں گھنے جنگلوں سے گزرتے ہوئے سفر مکمل ہوتا اور سب لوگ شگار گاہ پہنچ جاتے اور اس بات کو جانچتے کہ کیا وہ خشک ٹھنڈے کنویں میں خاموشی سے شکار کے لیے وقت گزار سکتے ہیں یا نہیں، یہ کنواں شامیانے سے ڈھنکا ہوا تھا اور یہ بہت سرد مقام تھا۔ اس جنگل میں شہزادی، ان کی بہنوں، والدہ اور دادی کا ٹھکانہ یہی تھا۔
شہزادی عابدہ سلطان کوچ بہار کے دورے کے دوران اپنی والدہ کے ساتھ خفیہ طور پر فلم دیکھنے بھی جایا کرتی تھیں، جو ان کے لیے بڑی بہنوں اور دوست کی طرح تھیں۔ ایک روز، جب وہ فلم دیکھ رہی تھیں، اچانک سرکار اماں داخل ہوئیں اور انہیں دیکھا اور چلّائیں، "بند کرو یہ سب!” یہ شور شرابا سن کر مینجر کو ہال کی لائٹیں روشن کرنی پڑیں اور شو روک دیا گیا۔ لائٹیں روشن ہوتے ہی لوگوں نے دیکھا کہ ایک خاتون سر سے پاؤں تک برقع میں لپتی، سر پر ہیروں کا تاج رکھے کھڑی ہیں۔ انہوں نے اپنی چھڑی لڑکیوں کی طرف لہرائی اور ان سب کو گھر کی طرف ہانک دیا۔
کوچ بہار میں قیام کے دوران مہارانی نے شہزادی عابدہ سلطان کو لومڑی کا شکار بھی سکھایا۔ اس کے بعد شہزادی اکثر اس شکار کے لیے خاص طور پر بنائی گئی ایک خندق میں دبکی نظر آتیں۔ جب وہ گیارہ برس کی تھیں، انہوں نے رکاوٹوں والی دوڑ میں حصہ لیا اور دوسری پوزیشن حاصل کی، جو ان کے مزاج کے مطابق انہیں اچھا نہیں لگا۔ ان کے والد کو کوئی کام اس وقت تک پسند نہ آتا جب تک وہ اسے پورے کمال سے انجام نہ دیا گیا ہو۔ بھوپال میں شکار کو وقت گزاری کا کھیل نہیں سمجھا جاتا تھا، بلکہ اسے وتو زندگی گزارنے کا ڈھنگ جانا جاتا تھا۔ بھوپال کو شکار کے لیے جنت سمجھا جاتا تھا اور نواب خاندان کے لیے شیر کا شکار بڑی کامیابی تصور کیا جاتا تھا۔ شہزادی عابدہ سلطان اپنی اوائل عمری ہی سے اپنے بڑوں کے ساتھ شکار کے کیمپ جایا کرتی تھیں۔ کئی کئی روز کیمپوں میں قیام کے بعد بیل گاڑیوں میں سفر بھی کرنا پڑتا تھا۔ ان کے والد، جو ایک ماہر نشانے باز اور بے خوف شکاری تھے، ہمیشہ شہزادی کو مشکل شکار کھیلنے کے لیے حوصلہ دیتے اور اس مقصد کے لیے انہیں ماہر شکاریوں کے ساتھ جنگل بھیجا کرتے۔ اس مقصد کے لیے انہیں بندوقوں اور اپنے بچاؤ کے سامان سے لیس گاڑیاں اور تربیت یافتہ شکاریوں کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں۔ شہزادی شیر کے شکار کے لیے جنگل میں نکل جاتیں اور شاذ ہی ایسا ہوتا کہ وہ جنگل سے خالی ہاتھ واپس آئی ہوں۔
شہزادی جب اٹھارہ برس کی تھیں، وہ سرکار اماں کے ہمران لندن گئیں، جہاں ان کی تاج پوشی کی گئی۔ کم عمری کے باعث انہیں وہاں کار چلانے کی اجازت نہیں تھی۔ انہوں نے سرکار اماں سے کہا کہ وہ انہیں ایک گھوڑا خرید کر دیں، لیکن ایک تربیت یافتہ پولو کے کھلاڑی کے لیے یہ کہاں ممکن تھا کہ وہاں سے گزرنے والی گاڑیاں گھوڑے کا مقابلہ کرپاتیں، لہٰذا یہ ممکن نہ ہوسکا۔ سرکار اماں کے کہنے پر رائل اکیڈمی کی ایک ٹیچر مسز تھامپسن نے شہزادی کے پاس آنا شروع کیا اور انہیں وائلن کے سبق سکھائے۔
لندن میں قیام کے دوران تینوں بہنوں نے گرلز گائیڈ کے لیے داخلہ لے لیا۔ تینوں بہنوں کے لیے وہاں رائج گرلز گائیڈز کے یونیفارم میں تبدیلی کی گئی۔ جب تینوں بہنیں باہر جاتیں تو اونچا لہنگا، کرتا اور لمبی جرابیں پہنا کرتیں۔ لندن ہی میں انہیں جاز موسیقی کا شوق چرایا اور انہوں نے اپنے والد کے ساتھ خوب گیت گائے اور پیانو پر ڈرم بجا کر جاز میوزک پر مقبول ترین گیت سنائے۔ لندن ہی میں قیام کے دوران سرکار اماں اپنے بیٹے حمید اللہ خان کے حق میں دست بردار ہوگئیں، یوں، حمید اللہ خان 107 برس تک مسلسل خواتین کی نوابی کے بعد بھوپال کے پہلے حکمراں بن گئے۔ اس کے بعد نواب خاندان بھوپال واپس آگیا۔ عابدہ سلطان اس وقت تیرہ برس کی تھیں، اور اسی عمر میں، جب وہ اپنے گھوڑوں اور بندوقوں کی دیکھ بھال کا سوچ رہی تھیں، انہیں برقع پہنا دیا گیا۔