فلسطین: کربلاکے نہتے مسلمان

ممتازعباس شگری

"میں ہمیشہ رسک پر کھڑی ہوں، میں کچھ بھی نہیں کرسکتی، آپ یہ سب کچھ دیکھ سکتے ہیں آپ مجھ سے کیا کرنے کی توقع کرسکتے ہیں۔ یہ سب کچھ ٹھیک کردوں؟ میں صرف دس سال کی ہوں۔ میں یہاں موجود کسی چیز سے نمٹ نہیں سکتی، میں ڈاکٹر بننا چاہتی ہوں تاکہ میں اپنے لوگوں کی خدمت کرسکوں، لیکن میں کیا کروں میں ایک چھوٹی بچی ہوں۔ میں نہیں جانتی مجھے کیا کرنا چاہیے۔ میں بہت زیادہ خوفزدہ ہوں لیکن لیکن اتنا کافی نہیں، میں اپنے لوگوں کیلئے کچھ بھی نہیں کرسکتی، میں نہیں جانتی مجھے کیا کرنا چاہیے، میں صرف دس سال کی ہوں ہاں صرف دس سال کی، جب میں اس دردناک منظرکو دیکھتی ہوں توہرروزچیخ چیخ کرروتی ہوں میں اپنے آپ سے کہتی ہوں کہ میں ان سب کی مستحق کیسے ہوسکتی ہوں؟ لیکن کر بھی کیا سکتے ہیں۔ میرا باپ کہتا ہے کہ وہ صرف ہم سے اس لیے نفرت کرتاہے کہ ہم مسلمان ہیں، لیکن مسلمان کبھی بھی تم لوگوں کے ساتھ ایسا رویہ نہیں رکھیں گے۔ آپ میرے ارد گرد ان چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کودیکھ سکتے ہیں۔ آخران کومیزائل سے ختم کرناکیوں چاہتے ہو؟ یہ قطعاً درست نہیں، ہاں یہ بالکل بھی درست نہیں” ۔یہ الفاظ تھے فلسطین کی دس سالہ معصوم بچی کے، جس کی ویڈیو اب تک دنیا بھرمیں لاکھوں کروڑوں مرتبہ دیکھی جاچکی ہے۔

یہ ویڈیو اقوام متحدہ سمیت ستاون اسلامی ممالک کی اتحادکے منہ پرطمانچہ ہے۔ میں فلسطین کی لڑائی کے اصل حقائق کو سامنے رکھنے سے پہلے ایک ماں کی فریاد کو آپ کے سامنے رکھنا چاہت اہوں۔ ۔”یہ خیال کہ اگلا میزائل آکر میرے گھر پر گرے گا، اس خوف کے الفاظ کو لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے، ایک ہی لمحے میں آپ بمباری کے درمیان ہوسکتے ہیں، جو جگہ آپ کیلئے محفوظ ترین ہے وہ کروٹ بدلتے ہی آپ کی اقبر بن سکتی ہے۔ میں اپنے بچوں کواردگردہونے والے پرتشدد واقعات کے بارے میں کیسے بتاوں؟ میں پانچ بچوں کی ماں ہوں۔ میں پچھلے کئی سالوں سے غزہ کی پٹی کے ایک پناہ گزیں کیمپ میں رہتی ہوں۔ اس انتہائی گنجان آبادغزہ کی پٹی میں 18 لاکھ لوگ رہائش پذیر ہیں۔ ،میں نے اپنے بچوں کو کچھ بھی کہنا بند کردیا ہے مگر ہمارا خوف چھپاناا تنا آسان نہیں، ہمیں نہیں معلوم کہ یہ جگہ محفوظ ہے کہ نہیں۔ اگر میں بچوں کو نہ بھی بتاوں تب بھی وہ سوشل میڈیا پر مختلف ویڈیوز اور تصویریں دیکھتے ہیں کہ ہر جگہ تباہی ہی تباہی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ان روز روز کی لڑائیوں سے میرے بچوں کی ذہنی صحت پر کیا اثر پڑرہا ہے، لیکن میں مجبورہوں میں کچھ بھی نہیں کرسکتی۔” یہ ایک فلسطینی ماں نجوہ کی فریادہے۔

آپ کو معلوم ہوگا کہ پچھلے کئی دنوں سے اسرائیل اورفلسطین کے درمیان لڑائی جاری ہے جس کی وجہ سے اب تک 61 بچوں اور 36 خواتین سمیت 212 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں اور 1300 سے زائد زخمی حالت میں ہیں۔ جبکہ میڈیا ہاوس سمیت کئی عمارتیں دیکھتے ہی دیکھتے کھنڈربن چکی ہیں۔

یہ تنازع کافی پرانا ہے پہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ کی شکست کے بعد برطانیہ نے فلسطینی خطے کا کنڑول سنبھال لیا تھا۔ اس وقت وہاں پر عرب اکثریت میں جبکہ یہودی اقلیت میں موجود تھے۔ دونوں برادریوں میں تناؤ اس وقت بڑھنے لگا جب عالمی برادری نے برطانیہ کی ذمہ داری لگادی کہ وہ یہودی کمیونٹی کے لیے فلسطین میں ’قومی گھر‘ کی تشکیل کریں۔ یہودیوں کے نزدیک یہ ان کا آبائی گھر تھا مگر اکثریت میں موجود فلسطینی عربوں نے اس اقدام کی مخالفت کی۔ 1920 کی دہائی سے 1940 کی دہائی کے دوران یہاں آنے والے یہودیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ ان میں سے کچھ دوسری جنگِ عظیم میں یورپ سے ہولوکاسٹ سے بچ کر آئے تھے، مگر اس دوران یہودیوں اور عربوں کے درمیان اور برطانوی حکومت کے خلاف پُرتشدد واقعات بڑھنے لگے۔ سنہ 1947 میں اقوام متحدہ نے ووٹنگ کے ذریعے فیصلہ کیا کہ فلسطین کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کیا جائے جن میں ایک یہودی ریاست ہو اور ایک عرب ریاست جبکہ یروشلم (بیت المقدس) ایک بین الاقوامی شہر ہو گا۔ اس تجویز کو یہودی رہنماؤں نے تسلیم کر لیا جبکہ عربوں نے بکثرت مسترد کر دیا اور اس پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ سنہ 1948 میں برطانوی حکمران یہ مسئلہ حل کیے بغیر ہی یہ خطہ چھوڑ کر چلے گیے۔ ادھر یہودی رہنماؤں نے اسرائیل کی ریاست کے قیام کا اعلان کردیا۔ بہت سے فلسطینیوں نے اس کی مخالفت کی اور پھر جنگ چھڑ گئی۔ ہمسایہ عرب ممالک کی فوجوں نے بھی اس جنگ میں حصہ لیا۔ لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بیدخل کر دیا گیا اور انھیں جان بچانے کے لیے بھاگنا پڑا۔

یہ سلسلہ یوں ہی جاری وساری تھا، لیکن گزشتہ دنوں متعدد فلسطینیوں کو مقبوضہ بیت المقدس میں ان کے گھروں سے بے دخل کئے جانے سے حالات نہایت ہی سنگین ہوگئے،  جس کی وجہ سے پوری دنیا کی توجہ ایک بار پھر فلسطین اور اسرائیل کی جانب مڑگئی ہے، موجودہ حالات کے تناظر میں یہ سوالات جنم لے رہے ہیں کہ لاکھوں پناہ گزیز فلسطینیوں کا اصل مستقبل کیاہوگا۔ عرب اردن میں یہودی بستیاں رہے گی یانہیں رہے گی، کیا یہ دونوں فریق بیت المقدس میں اکھٹے رہ سکیں گے جوکہ تقریبا ناممکن ہے کیونکہ یہ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے اور مسلمان کسی بھی صورت قبلہ اول سے دستبرداری یا کسی کی شراکت داری نہیں چاہتے، اور کیا اسرائیل کے ساتھ ایک فلسطینی ریاست بن سکتی ہے جوکہ بالکل ناممکن ہے۔ مسلمان کسی بھی صورت یہودونصاریٰ کے ساتھ ایک ہی ریاست میں اکھٹے رہنے کو ترجیح نہیں دیں گے۔ گزشتہ پچیس سالوں سے اس معاملے کوسلجھانے کی لئے امن مذاکرات ہوتے رہے ہیں تاہم اب تک کوئی بھی حل نہیں نکل سکا۔

ہماراالمیہ ہے ہماری حکومتوں نے اب تک مذمت کے علاوہ کچھ نہیں کیاہم نے گزشتہ دنوں ایک بارپھرلفظی مذمت کرکے جان چھڑانے کی کوشش کی ہے،اس آگ کوسلجھانے کیلئے اقوام متحدہ نے بھی اجلاس طلب کیاجس میں جنگ بندی پرزوردیاگیالیکن بغیرکسی نتیجے کے ختم ہوگیا،امریکہ جوکہ ایک طرف سے اسرائیل کوسپورٹ کرتاہے ا نہوں نے حال ہی میں اسرائیل کو735ملین ڈالرکے اسلحے کی فروخت کی منظوری بھی دی ہے امریکہ کبھی نہیں چاہتاکہ جنگ بندی ہو،ادھراسلامی ریاستوں کے ٹھیکداروں کاحال بھی کسی سے کم نہیں اوآئی سی کااجلاس بھی بغیرکسی نتیجے کے ختم ہوگیا،ترک صدرطیب اردگان جس کواسلامی ممالک کاسب سے طاقتورصدرماناجاتاہے وہ بھی فلسطینیوں کی نسل کشی پرخاموشی کے سائے میں بیٹھے ہوئے ہیں،آخروہ چاہتے کیاہے،وہ ایک طرف اسرائیل کوتسلیم کرکے تجارت کی فروغ کیلئے کام کرتاہے تودوسری طرف مسلمان ہونے کادعوی کرتاہے، آخر57اسلامی ملکوں کی باہمی فوج کہاں سوئی ہوئی ہے اس فوج کے کمانڈرکونظرنہیں آرہی کہہ فلسطین کے نہکتے شہری انہیں ہل من الناس کی صدادے رہی ہے،آخریہ باہمی فوج کس بلاکانام ہے کیاسعودیہ کی دفاع کیلئے بنائی ہے جوکہ امریکہ کے ساتھ مل کراسرائیل کوسپورٹ کررہاہے۔

آپ یقین کرلیں فلسطینیو ں کی نظرایک بارپھرپاکستان،ایران سمیت اسلامی ملکوں پرمرکوزہے انہیں بخوبی علم ہے بابائے قوم قائداعظم محمدعلی جناح نے اسرائیل کی ناپاک وجودکوتسلیم کرنے سے انکارکیاتھااوریہ قوم اب بھی اسی فیصلے پربرسرپیکارہے، فلسطین کے نہتے شہری پاکستان سے آس لگائے بیٹھے ہوئے ہیں،آج پھرسے ایک اورکربلاہمیں ہل من الناس کی صدادے رہی ہے سرزمین الگ ہے لیکن صداحق بلندہورہی ہے اب ہم پرمنحصرہے کہ ہم کیاکریں گے،ہماری حکومت کم ازکم عالمی عدالت میں اسرائیل کے خلاف کیس توکرسکتاہے کم زکم اسلامی ممالک سمیت امریکہ جس کواپناحامی سمجھتے ہیں ان سے فلسطین کی نسل کشی روکنے کے حوالے سے لائحہ عمل طے کیے جاسکتے ہیں،اگرہم آج بھی ان کی آوازپرلبیک نہیں کہیں گے توفلسطین ِکربلاکے معصوموں کی بدعائیں لگنے میں دیرنہیں لگے گی۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔