پکا قلعہ حیدرآباد اور اس کی مختصر تاریخ

حیدرٓباد شہر کی بنتی بگڑتی تاریخ کے حوالے سے خصوصی تحریر

نثار نندوانی

آپ جب پنجاب سے صوبہ سندھ میں داخل ہوں اور کراچی کی جانب سفر کریں تو کراچی سے پہلے پاکستان کے ایک بڑے شہر حیدرآباد سے گزرتے ہیں۔ یہ شہر اپنے اندر ایک بہت بڑی تاریخ رکھتا ہے۔ اس کا شمار پاکستان کے قدیم شہروں میں ہوتا ہے۔ اس کی تاریخ کافی پرانی ہے، مگر اس کی جغرافیائی حیثیت کی وجہ سے پاکستان کے باقی صوبوں کے لوگ بہت کم جانتے ہیں، کیونکہ دیگر صوبوں سے گزرنے والے لوگ شہر سے باہروں باہر ہی گزر جاتے ہیں۔

اس شہر کا پرانا نام "نیرون کوٹ” تھا، جسے راجا نیرون نے آباد کیا تھا۔ اس کی ایک بیٹی نگار بھی تھی۔ محب اللہ بکھری لکھتے ہیں کہ "حیدرآباد دراصل نیرون کے نام سے مشہور ہے۔” مغلوں کی فتح کے بعد یہ شہر حیدرآباد کہلانے لگا تھا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ اسے غلام شاہ کلہوڑو نے یہ نام دیا تھا، مگر یہ بات مستند ہے کہ حیدرآباد میں گنجے ٹکر "گنجی چٹان” پر ایک قلعہ "پکو قلعو” عرف عام پکا قلعہ بنوایا تھا، تاکہ دشمنوں سے محفوظ رہا جائے۔ اس قلعے کو پکی اینٹوں اور مٹی کے گارے سے تیار کیا گیا تھا۔ اس کی شان و شوکت کے قصے کئی کتابوں میں درج ہیں۔ اس قلعے سے جڑے کئی تاریخی واقعات بھی تاریخ کے ان اوراق میں درج ہیں، جن کے بغیر سندھ کی تاریخ نا مکمل ہے۔ محل اور قلعے کیسے ہوتے ہیں؟ انہیں جب تک اپنی آنکھوں سے نہ دیکھا جائے تب تک اندازہ نہیں ہوتا۔انسانی تہذیب کی کہانی کو پڑھا جائے تو اس میں قلعے، محل اور دیگر عالیشان عمارتیں دنیا کے ہر خطے میں نظر آجاتی ہیں۔ اپنے اپنے ادوار میں عوام پر حکمرانی کرنے والے بادشاہوں نے جہاں ان قلعوں میں رہ کر راج کیا ہے، وہاں انہوں نے خود کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے بھی مختلف مقامات پر قلعے بنوائے۔ مگر آج ان قلعوں کی حالت دن بدن بگڑتی جا رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وقت کے زور کے آگے یہ قلعے اپنے گھٹنے ٹیک چکے ہیں۔ قلعوں کی دنیا جہاں رنگینیوں سے بھرپور ہوا کرتی تھی وہیں محلاتی سازشوں کے قصے بھی انہیں قلعوں کی اونچی دیواروں اور حرم کے اندر پنپتے رہتے تھے۔ پھر ایک روز ایسا بھی آتا ہے کہ تخت گرائے جاتے ہیں اور تاج اچھالے جاتے ہیں۔ لہٰذا یہ قلعے ایسے ویران ہو جاتے ہیں جیسے کبھی آباد تھے ہی نہیں۔ مگر ہر حکمران کے عروج و زوال کی اپنی اپنی کہانی ہوتی ہے۔

موجودہ حیدرآباد کی بنیاد میاں غلام شاہ کلہوڑہ نے رکھی۔ انہوں نے 1768 میں اس قلعے کی بنیاد رکھی۔ برطانوی ڈاکٹر ہیڈل نے حیدرآباد کے حوالے سے تفصیلات دیتے ہوئے لکھا کہ "حیدرآباد کا قلعہ 40 گز کشادہ کھائی کے ذریعے شہر سے کٹا ہوا تھا اور یہی قلعے کے دفاع کا واحد وسیلہ تھا۔ مذکورہ کھائی چٹان کے باہر جنوبی علاقے کو الگ رکھتی تھی، جس پر قلعہ تعمیر کیا گیا تھا۔ اس لیے آمد و رفت پل کے ذریعے برقرار رکھی جاتی تھی۔ قلعے کے مرکزی دروازے کے آگے جو دفاع کی خاطر ایک نیم گھومتی ہوئی دیوار تھی، اس کے دونوں اطراف ایک گلی تھی، جسے اب شاہی بازار کہا جاتا ہے اور یہ شاہی بازار مارکیٹ ٹاور سے شروع ہوکر سیدھی پکے قلعے کے مرکزی دروازے پر ختم ہوتی ہے۔

اس قلعے کے اندر جو رہائش گاہیں بنی ہوئی تھیں ، ان میں صاحبزادوں کے محل، دیوان خاص، دیوان عام، میروں کے دربار، ملازموں کے کمرے، مسجدیں اور حرم خانے شامل تھے۔ یہ قلعہ حیدرآباد ریلوے اسٹیشن کے برابر میں موجود ہے۔ جس کا قطر ایک میل اور اونچائی 80 فٹ ہے۔ اس کی چوڑائی 26 سے 30 ایکڑ بتائی جاتی ہے۔ لطف اللہ مالوی سندھ کے سفر میں لکھتے ہیں کہ "شاہی قلعہ بیضوی شکل کا ہے جو پکی اینٹوں اور کیچڑ سے بنا ہوا ہے۔” ناتھن کرو 1799ء میں سندھ آئے اور یہاں 17 ماہ رہے۔ انہوں نے لکھا، "حیدرآباد کے کوٹ کی ایک بڑی دیوار ہے، جس میں چند بھاری توپیں رکھی ہوئی ہیں، دیوار پتلی ہے، مگر اندر مٹی بھری ہوئی ہے۔ کچھ مٹی اصلی اور کچھ مصنوعی ہے۔ لہٰذا دیوار کو توڑنا مشکل ہے۔ والٹر ہیملٹن نے 1820 میں لکھا کہ "یہ قلعہ ایک چٹان پر قائم ہے اور ایک ہزار قدم لمبا ہے۔ جس کی ایک جانب پھلیلی اور دوسری جانب 3 میل کے فاصلے پر دریائے سندھ ہے۔” میاں غلام شاہ کہلوڑا کو یہ قلعہ اتنا پسند تھا کہ ایک روز انہوں نے قلعے کی تعریف میں لوگوں کو مدعو کیا اور قصیدے پڑھوائے۔ انہوں نے شعراء کو انعام و اکرام سے بھی نوازا اور اسی مجلس میں انہوں نے نیرون کوٹ کے لیے حیدرآباد نام تجویز کیا اور ایک سنگِ مرمر کی تختی بنوا کر قلعے کے مرکزی دورازے پر لگوائی۔قلعے میں 2 اہم ترین دیوان تھے۔ قلعے کے اندر میر نصیر نے ایک عمارت بنوائی تھی، جس میں میر صاحب دربار کیا کرتے تھے۔ جس کے آنگن کے ستونوں اور اندر کی چھت پر نقش نگار بنے ہوئے تھے۔ دیواروں پر بھی رنگین تصاویر تھیں، جن میں کچھ رستم سہراب کی تھیں اور چند میں میروں کی دربار کو دکھایا گیا تھا۔ اس عمارت کو دیوان خاص کہا جاتا تھا۔ ایک دیوان عام تھا، جو دیوان خاص کے شاہی دروازے کے سامنے تھا۔”

جیمس برنس” لکھتے ہیں کہ "دیوان عام کی عمارت کی دیواریں ہر طرف سے بہت ہی خوبصورت تصاویر سے سجائی گئی تھیں اور فرش پر رنگ برنگے غالیچے (دریاں) بچھے ہوئے تھے۔ ایک جانب سے 3 بلند محرابی دروازے تھے، جن پر سبز ریشمی رنگ کے پردے لٹک رہے تھے۔ بلوچ سردار خوبصورت ریشمی پھولدار تکیوں کو ٹیک لگا کر بیٹھے تھے۔ پکا قلعہ سندھ کے ان قلعوں میں سے ہے، جن سے تاریخی دور کے کئی واقعات منسلک ہیں۔ کہلوڑا حکمرانوں کے بعد یہ تالپور حکمرانوں کے زیرِ اثر رہا، جو اس قلعے پر تب تک رہے، جب تک انگریز سندھ کے اقتدار پر قابض نہیں ہوئے۔ یہ سندھ میں وہ دور تھا جب انگریز تالپوروں سے معاہدے کرتے چلے گئے اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ میانی اور ہالانی والی جنگوں میں تالپوروں کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ انگریزوں کا قبضہ اور برطانوی پرچم میر مراد علی کے علیل ہونے کے بعد 1824 میں انگریز حکومت نے ڈاکٹر جیمس برنس کو حیدرآباد بھیجا، جنہوں نے میر صاحب کا علاج کیا۔

میر نور محمد خان کے دنوں میں انگریز سرکار نے حیدرآباد میں ایک ریزیڈنٹ مقرر کیا۔ 1824 میں ہی سر چارلس نیپیئر یہاں آئے۔ اس زمانے میں ان کی سندھ کے حکمرانوں سے نہیں بنی اور ان پر الزام ہے کہ انہوں نے میاں خان مری کو بے گناہ قتل کروایا تھا۔ 1839 میں جنرل کین، جو کراچی سے لشکر لے کر شاہ شجاع کی مدد کے لیے جا رہے تھے، وہ کوٹڑی کے مقام پر اتر کر حیدرآباد شہر گھومنے آئے۔مگر یہ 19 فروری 1843 کا دن تھا جب سندھ پر برطانیہ قابض ہوگیا اور کیپٹن پیلے نے قلعے کے عملے کو آگاہ کیا کہ کل قلعے پر برطانوی پرچم لہرایا جائے گا۔ 20 فروری دوپہر 2 بجے کرنل پٹیل، گھڑ سواروں، پیادوں اور 2 توپوں کے ساتھ قلعے میں داخل ہوئے اور قلعے پر برطانیہ کا جھنڈا لہرا دیا۔

پھر 1947 تک یہ قلعہ انگریزوں کے زیر تسلط رہا اس کے بعد پہلی بار یہاں ہندوؤں کے خاندانوں کو پناہ دی گئی تاکہ ہندؤ مسلم فسادات سے بچا جائے اور کئی ہندؤ خاندان یہاں رہائش پذیر رہے اور آہستہ آہستہ ہندوستان چلے گئے۔ اس کے بعد اس قلعے کو مہاجرین کیلئے عارضی پناہ گزین کیمپ قائم کی گئی مگر یہاں عارضی طور پر رہنے والے مستقل قیام پذیر ہو گئے اور یوں قلعے کے اندرونی ساخت بالکل بدل کر رہ گئی۔ باہر سے وہ قلعہ ہی رہا مگر اندر مختلف گھروں کی تعمیر سے اس کا نقشہ بدل کر رہ گیا اور یوں یہ تاریخی قلعہ عام سیاحوں کیلئے بند ہوگیا۔ یہ قلعہ اب اپنے اندر ایک پورا شہر بن چکا ہے، جہاں لوگوں کے گھر ہیں، کھیل کا میدان ہے، پارک ہیں، گلیاں اور راہداریاں ہیں۔ لوگ چھوٹے چھوٹے گھروں میں یہاں رہائش پذیر ہیں۔ مگر اب قلعے کی دیواریں ان گھروں کے بوجھ تلے ہی دب رہی ہیں۔ وہاں کی دیواریں اب چُور چُور ہورہی ہیں۔ فصیلیں غائب ہوچکی ہیں اور اندر گٹر نالے بہہ رہے ہیں۔ گھروں کے بن جانے کی وجہ سے 3 اطراف سے اب قلعے کی دیوار دکھائی ہی نہیں دیتی جبکہ مشرق کی جانب برج والی دیوار اب بھی دکھائی دیتی ہے، مگر اس کی اینٹیں بھی اکھڑ چکی ہیں۔ اسی دیوار کے نیچے کئی دکانیں بھی ہیں، جبکہ کئی بار تو قلعے کی دیواریں گرنے کے واقعات بھی پیش آ چکے ہیں۔ تمام تر مسائل کے باوجود لوگوں کو اس قلعے میں رہنے کی ایسی عادت پڑ چکی ہے کہ ان کے لیے کہیں اور آباد ہونا ناممکن سا لگتا ہے۔

قلعے کی مرمت اور تحفظ کے لیے محکمہ آرکیالوجی نے 87 کروڑ مختص کیے ہیں مگر اس کے باوجود یہ قلعہ دن بدن زوال کا شکار ہو رہا ہے۔ بارشوں، موسم کی سختیوں اور وقت کی مار قلعے کو بتدریج تباہ حالی کی جانب دھکیل رہی رہے۔ قلعے کے مرکزی دروازے سے داخل ہوتے ہی اس کی تباہ حالی نظر آنی شروع ہوجاتی ہے۔ مگر یہ دروازہ بھی اسی ماہ ستمبر 2021 میں نا اہل ٹھیکیداروں کی وجہ سے منہدم ہوگیا اور محکمہ ثقافت زبردست تنقید کی زد میں ہے۔ قیام پاکستان کے بعد بھی اس پکے قلعے کی فصیلوں اور دیواروں نے بعد سے سانحات اور واقعات کے چشم دید گواہ ہیں۔ سیاسی وجوہات کے سبب اس مضمون میں جن کا ذکر مناسب نہیں اس کے علاوہ اس قلعے سے ہر سال ماہ محرم میں ایک ایسا جلوس بھی نکالا جاتا ہے جو ایک انگریز چارلی ایلکاٹ سے منسوب ہے اور اس کا ذکر کسی اور مضمون میں کیا جائے گا۔ قدم مبارک مولا علی کرم اللہ وجہہ کی زیارت بھی قلعے کے پاس ہی ہے۔مضمون کی تیاری میں جناب اشتیاق انصاری کی کتاب سندھ جا کوٹ ایئں قلعہ سے مدد لی گئی ہے۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔