جنگِ ستمبر، پاکستانی تاریخ کا اہم سنگِ میل
پاکستانی جانبازوں نے کس طرح 1965ء کی جنگ میں بھارتی فوج کا بھرکس نکالا، خصوصی تحریر
یوم دفاع پاکستان ملکی تاریخ کے اہم ترین واقعات میں سے ایک ہے۔ کشمیر میں پاک فوج کے ہاتھوں مسلسل پسپائی کے بعد بھارت نے انتقاماً بین الاقوامی سرحد کی خلاف ورزی کرنے کا فیصلہ کیا اور 6 ستمبر 1965 کو بھارتی فوج نے جنگ کا باقاعدہ اعلان کیے بغیر پاکستان کی بین الاقوامی سرحدیں عبور کرلیں۔
واہگہ کے مقامات پر ہی، پاک فوج کی جانب سے انتہائی طاقتور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ کھیم کرن کے مقام سے شہر قصور میں داخلے کی کوشش بھی، بھارت کو مہنگی پڑ گئی۔ پاک فوج کے جوانوں نے سینوں پر بم باندھ کر بھارتی ٹینکوں کو تباہ کیا، بی آر بی نہر پر پاکستان کی دفاعی لائن نے دشمن کی پیش قدمی روک دی۔ یہ وہ وقت تھا جب نہ صرف ہمارے بہادر فوجی بلکہ پوری قوم مادر وطن کے دفاع کے لیے کھڑی ہوئی اور بھارتی فوج کو میدان جنگ سے فرار ہونے پر مجبور کیا۔ بالآخر اقوام متحدہ کی مداخلت پر 23 ستمبر 1965 کو جنگ بندی معاہدے کے تحت جنگ روک دی گئی۔
پاکستانی افواج نے نہ صرف اس پیش قدمی کو ناکام بنایا بلکہ جوابی کارروائی کرتے ہوئے بھارتی افواج کو سرحد پار جا کر، کھیم کرن تک دھکیل دیا۔ صدر فیلڈ مارشل ایوب خان نے اسی روز قوم سے ایک تاریخی خطاب کیا۔ اُن کے خطاب نے ایسا جوش و ولولہ پیدا کر دیا کہ ملک کا ہر فرد، اپنی سرحدوں کا دفاع کرنے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔
اُدھر پاک فضائیہ نے بھارتی علاقے میں، پٹھان کوٹ، آدم پور اور ہلواڑہ ایئر بیسز پر انتہائی کامیاب حملے کیے اور پاک فضائیہ کی اس کارروائی میں، دشمن کے درجنوں طیارے تباہ ہوئے۔ بین الاقوامی مبصرین کا کہنا تھا کہ ان حملوں نے بھارتی فضائیہ کی کمر توڑ دی تھی۔ہمارے ہوا باز 7 ستمبر کو اپنے اپنے مجوزہ ہدف کو حاصل کرنے کے لیے دشمن پر جھپٹ پڑے۔ ایک طرف اسکوارڈرن لیڈر ایم ایم عالم جیسے سپوت نے ایک منٹ سے بھی کم وقت میں دشمن کے پانچ جہازوں کومار گرایا۔ تو دوسری طرف اسکوارڈرن لیڈر سر فراز رفیقی اور اسکوارڈرن لیڈر منیر الدین اور علاؤالد ین جیسے شہیدوں نے بھی ثابت کر دیا کہ حرمت وطن کی خاطر ان کی جانوں کا نذرانہ کوئی مہنگا سودا نہیں۔
7ستمبر پاکستان کی فتح اور کامیابیوں کا دن تھا۔ پاکستان نیوی کا بحری بیڑا بھی اپنی واحد آبدوزپی این ایس غازی کے ساتھ ہندوستان کے ساحلی مستقر’’دوارکا‘‘پرحملے کے لیے روانہ ہوا۔ اس قلع پر نصب ریڈار ہمارے پاک فضائیہ کے آپریشنز میں ایک رکاوٹ تھی۔ اس بیڑے نے صرف 20منٹ تک دوار کا پر حملہ کیا۔ توپوں کے دھانے کھلے اور چند منٹ میں دوار کا تباہ ہو چکا تھا۔1965ء کی جنگ کا غیر جانبداری سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ بڑے سرکش اورخونخوار شکار کو پاکستان نے چھوٹے سے جال میں آسانی سے قید کر لیا۔ سب کچھ قائد اعظم کے بتائے اصول( ایمان، اتحاد،نظم) پر عمل کرنے سے حاصل ہوا۔ یہی اصول1965ء کی جنگ میں پاکستان کی کامیابی کامرکز اور محور تھے۔
چونڈہ کے سیکٹر پر پاک فوج کے جوانوں نے اپنے جسموں کے ساتھ بم باندھ کر بھارتی فوج اور ٹینکوں کا قبرستان بنادیا۔ اس جنگ میں پاک بحریہ کا کاردا بھی انتہائی اہم تھا۔ پاک بحریہ نے نہ صرف بھارت کی کراچی کی بندرگاہ پر پیش قدمی کو بڑی کامیابی سے روکا بلکہ بھارت میں جا کر دوارکا کے مقام پر بھارتی طیاروں اور ریڈار سسٹم کو تباہ کر کے بھارتی افواج کا غرور خاک میں ملایا۔
پوری پاکستانی قوم اور مسلح افواج نے اپنے سے کئی گنا زیادہ بڑی بھارتی فوج کو پاکستان پر حملے کا ایسا کرارا جواب دیا کہ دنیا مسلح افواج کی پیشہ ورانہ مہارت، جرات اور قوم کے جذبہ حب الوطنی پر حیران رہ گئی۔ ہندوستان کے اس سطح پر نقصان اور تباہی کو دیکھ کر بیرون ممالک سے آئے ہوئے صحافی بھی حیران اور پریشان ہوئے پاکستانی مسلح افواج کو دلیری پر داد دی۔
15 ستمبر 1965 کو امریکن براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے رائے میلون نے رپورٹ کیا کہ "میں بیس سال سے صحافت سے وابستہ ہوں۔ یہ بات ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ میں نے پاکستان کے لیے لڑنے والوں سے زیادہ پر اعتماد اور فاتح فوج نہیں دیکھی۔” 17 ستمبر کو ٹائم میگزین نے رپورٹ کیا کہ "پاکستان کی چھوٹی لیکن اعلیٰ تربیت یافتہ فوج بھارتیوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔” ستمبر 1965 کے لندن ڈیلی مرر کے مطابق "بھارت کو ایک ایسی قوم نے شکست دی ہے جس کی آبادی ساڑھے چار سے ایک اور مسلح افواج کے سائز میں تین سے ایک ہے۔”
اب ہم ذکر کریں گے اس معاہدے کا جس کے تحت پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری جنگ ختم ہوئی اور امن قائم ہوا۔ یہ تاشقند معاہدہ کہلاتا ہے، جو پاکستان اور بھارت کے درمیان ہوا۔ اس معاہدے پر دس جنوری 1966 کو دستخط کیے گئے۔ دراصل عالمی طاقتیں اس بات سے خوفزدہ تھیں کہ اگر جنگ بڑھی تو یہ دیگر ان تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان یہ جنگ دراصل اپریل 1965 میں چھوٹے پیمانے پر شروع ہوئی تھی، جس نے چھ ستمبر کو خوفناک روپ اختیار کرلیا تھا۔ اس معاہدے کے لیے اجلاس سابق سوویت یونین کے شہر تاشقند میں ہوا، جو اب ازبکستان کا دارالحکومت ہے۔
اب آتے ہیں اس جنگ سے متعلق بھارت کی جانب سے پھیلائی جانے والی کچھ غلط فہمیوں اور ان کے حقائق کی طرف:
یہ غلط فہمی پیدا کی گئی کہ پاکستان نے بھارتی کشمیر میں آپریشن جبرالٹر کیا، جس کی وجہ سے بھارت کو پاکستان پر حملہ کرنا پڑا۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ یہ جنگ شروع ہی اس وقت ہوئی جب بھارت نے بین الاقوامی سرحد پار کرکے پاکستان پر حملہ کیا اور بھارت کی جانب سے صبح کا ناشتہ لاہور میں کرنے کا اعلان کیا گیا۔
پاکستان کی مسلح افواج نے کم رسد کے باجود دشمن کو وہ مزہ چکھایا جس نے اس کے دانت کھٹے کردیے۔ یہی وجہ ہے کہ 6 سمبتر کو یومِ دفاع منایا جاتا ہے۔ اگر پاکستان حملہ کرتا اور بھارت پاکستان کو پچھاڑتا تو آج بھارت میں یوم دفاع منایا جارہا ہوتا۔
بھارت کا یہ الزام درست نہیں کہ اس جنگ کیلئے امریکا نے راتوں رات پاکستان کو بھاری اسلحہ فراہم کیا تھا، حقیقت تو یہ ہے کہ پاک فوج نے وہ جنگ عوام اور کم وسائل کے ساتھ پوری حب الوطنی کے ساتھ تنہا جیتی تھی۔ اس جنگ میں امریکا پاکستان کا ناقابلِ بھروسہ پارٹنر ثابت ہوا تھا اور اس نے اس جنگ میں پاکستان کی کوئی مدد نہیں کی تھی۔
بھارتی حملے نے یہ ثابت کردیا تھا کہ نیو دہلی نے اس وقت تک پاکستان کے قیام کو تسلیم نہیں کیا تھا، یہی وجہ تھی کہ بھارت نے نہ صرف پاکستان پر حملے کا باضابطہ اعلان کیا بلکہ لاہور پر قبضے کا دعویٰ بھی کر ڈالا تھا۔ بھارت کے بعض حلقے آج بھی پاکستان کو تسلیم کرنے اور پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کے مخالف ہیں۔ اس جنگ کا بڑا فائدہ یہ ہوا کہ پاکستان کی مسلح افواج کو نہ صرف اپنے نظریے بلکہ اپنی آپریشنل طاقت آزمانے اور مستقبل میں کسی بھی جنگ کے لیے تیار رہنے کا موقع ملا۔
پاکستان کے حاسدین یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ پاکستان نے جنگ ستمبر سے متعلق اپنی تاریخ میں ردو بدل کرکے اسے بھارت کی شکسٹ قرار دیا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ لاہور میں واہگہ کے علاوہ بھارت نے سیالکوٹ میں بھی اپنی بری فوج کا ایک مسلح ڈویژن اتار دیا۔ گھمسان کا رن پڑا، لیکن بھارت کو یہاں بھی منہ کی کھانی پڑی۔
خود بھارتی لیفٹیننٹ جنرل آنجہانی ہربکش سنگھ، جو اس جنگ میں بھارتی مغربی کمانڈ کی قیادت کررہے تھے، اپنی کتاب میں لکھتے ہیں، "ہم نے حملہ کیا تو اپنی جیت سے سرشار ہوکر ایک دوسرے کو خوب شاباش دی، لیکن جب گرد چھٹی تو تمام منظر بدل چکا تھا اور صبح ہونے تک ہماری فتح ایک سراب ثابت ہوئی۔ "War Despatches, P-214”
بھارت کا الزام ہے کہ پاکستان اپنے یوم دفاع پر جنگ ستمبر کے بارے میں جھوٹا پروپگنڈا پھیلاتا ہے اس طرح وہ پاک فوج کو بہت بڑا بنا کر پیش کرتا ہے۔ تو جناب پاکستان دنیا میں واحد ملک نہیں جو اپنا یوم دفاع مناتا ہے، بلکہ برطانیہ، بیلجیم، فرانس اور کئی دیگر ممالک ہر سال گیارہ نومبر کو جرمنی اور اتحادی افواج کے درمیان عالمی جنگ کو یاد کرتے اور اپنے فوجیوں کی بہادری کا دن مناتے ہیں۔ امریکا بھی اسی روز اپنے فوجیوں کی قربانی کی یاد کا دن مناتا ہے۔ ڈچ قوم اپنی افواج کا دن 29 جون کو مناتی ہے، ترک قوم 30 اگست کو جنگِ آزادی اور اس میں فتح کا دن مناتی ہے اور 7 دسمبر کو بھارت میں بھی اپنے فوجیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے فوجی پرچم کا دن منایا جاتا ہے۔ پاک فوج کو اپنے عوام کے درمیان اپنی اہمیت ثابت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
چوونڈا کی لڑائی
سیالکوٹ سیکٹر میں 7 اور 22 ستمبر کے درمیان لڑی جانے والی ٹینکوں کی لڑائی کو چوونڈا کی لڑائی کہا جاتا ہے۔ بھارت نے اس علاقے میں فتح کا دعویٰ کیا ، لیکن تاشقند معاہدے نے اس دعوے کو چھوٹا ثابت کردیا۔ یہ جنگ بنیادی طور پر چوونڈا قصبے پر بھارتی فوج کی طرف سے ایک بڑے مغربی محاذ پر لڑی گئی تھی۔ منصوبہ یہ تھا کہ لاہور پر قبضہ کر لیا جائے اور اس شہر کو مغربی پاکستان کے اندر مزید آپریشن کے لیے اڈے کے طور پر استعمال کیا جائے۔ بھارت نے اپنی واحد بکتر بند ڈویژن کو پہلے حملے کے لیے زمین پر تعینات کیا، جسے 14 ویں انفنٹری اور 6 ویں ماؤنٹین ڈویژن نے سپورٹ کیا۔
پاکستان نے 15ویں ڈویژن اور 6 ویں آرمرڈ ڈویژن پر مشتمل 1 کور کو میدان میں اتارا اور چوتھے آرٹلری کی مدد سے دفاع کیا۔ پاک فوج کے 15 ویں ڈویژن میں چار انفنٹری بریگیڈ اور چار ٹینک رجمنٹ شامل تھے۔ دفاع کے لیے کام کرنے والے یونٹس 115 ، 24 ، 101 اور 104 انفنٹری بریگیڈ تھے۔ لیفٹیننٹ کرنل ناصر کی قیادت میں 25 ویں کیولری رجمنٹ نے پیٹن ٹینکوں سے لیس یونٹ کی کمان بھی کی جس نے بعد میں گڈگور گاؤں کے قریب بھارتی افواج کی پیش قدمی کو کامیابی سے پیچھے دھکیل دیا۔
بھارتی جارحانہ 1 کور پاکستان میں داخل ہوتے ہی الگ ہو گئی تھی۔ دشمن کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ سیالکوٹ کو لاہور سے منقطع کردے۔ جنوب مغربی سمت میں آگے بڑھے۔ حملے کا ابتدائی مقصد فلورا ، چوونڈا اور پاگووال کے قصبوں پر قبضہ کرنا تھا۔ 7 ستمبر کو بھارتی فورسز نے سیالکوٹ پسرور ریلوے کے سرحدی علاقے پر قبضہ کرلیا۔
پاکستان نے ایک آزاد ٹینک شکن اسکواڈرن بشمول 135 ٹینک بھیج دیے، جس کے بعد علاقہ گولوں سے گونج اٹھا۔ پاک فوج کو برتری حاصل ہوئی اور پاکستان نے مزید بھارتی پیش قدمی روک دی۔ بھارتی 1 کور کی ایک اور انفینٹری بریگیڈ نے گیٹ قصبے پر حملہ کیا اور نئی دہلی سے پہلی آرمرڈ بریگیڈ نے حملے کو آگے بڑھایا۔
اس جنگ کے خلاف پاک فضائیہ کے فضائی حملوں نے بھارتی بکتر بند صفوں میں تباہی مچا دی۔
دو دن کی وقفے وقفے سے لڑائی کے بعد بھارتی فوج نے اس علاقے میں ایک اور حملہ کیا، جسے پاکستانی افواج نے اس حملے کو بھی پسپا کر دیا۔ پاکستان نے 18 ستمبر کو ایک مہاکاوی حملے سمیت چوونڈا لینے کی متعدد بھارتی کوششوں کو ناکام بنا دیا۔
21 ستمبر کو بھارت نے روس کی سرپرستی میں جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی، اس کے بعد بھارتی افواج سرحد پر اپنی اصل پوزیشنوں پر واپس چلی گئیں۔
پٹھان کوٹ ایئربیس کی تباہی
پاک فضائیہ نے 6 ستمبر کو پٹھان کوٹ کے انڈین فارورڈ ائیر بیس پر بھرپور حملے کرکے دشمن کو مکمل طور پر حیران کر دیا اور زمین پر موجود 10 طیاروں کو تباہ کر دیا، اس کے علاوہ بیس کو بھاری مال نقصان بھی پہنچایا۔ اس حملے کو اکثر عسکری مورخین اور دفاعی تجزیہ کاروں نے معاصر تاریخ کے کامیاب ترین فضائی حملوں میں سے ایک قرار دیا ہے۔ جب بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر پر دباؤ دور کرنے کے لیے اس وقت مغربی پاکستان کی سرحد عبور کی، لیکن اسی اثنا میں پاک فضائیہ نے پٹھان کوٹ ایئر بیس کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ آٹھ ایف -86 سابر طیاروں کو 6 ستمبر کی شام بھارتی اڈے پر حملہ کرنے کا کام سونپا گیا، جو پشاور سے پرواز کر رہا تھا۔ پاک فضائیہ نے پٹھان کوٹ کے علاوہ آدم پور ، ہلواڑہ اور جام نگر میں بھارتی ایئربیس پر بھی حملوں کی منصوبہ بندی کرلی تھی۔ پشاور کے 19 اسکوارڈن نے اس مشن کے لیے سرگودھا، پشاور اور موری پور سے 32 ایف 86 طیاروں کے ساتھ ان مقامات کو نشانہ بنایا۔ اسکواڈرن لیڈر سجاد حیدر نے پٹھان کوٹ پر حملے کی کمان سمبھالی اور مشن کو بہت اچھی طرح سے پلان کیا۔ حیدر نے اپنے پائلٹوں کو ہدایت کی کہ وہ پشاور سے پرواز کرکے ہدف پر بلندی سے حملے کریں، بعد میں راڈار کور سے نیچے درخت کی چوٹی پر غوطہ کھاتے ہوئے بیک وقت دشمن کے ہدف کی طرف مڑیں۔ طیارے نے پشاور سے اونچی اڑان بھری، اور 11 ہزار میٹر تک پہنچ گیا۔ پھر غوطہ کھا کر نیچے درخت کی سطح پر پہنچا اور دشمن کے ہدف کی طرف بڑھا۔ بھارتی فوجیوں کے انتباہ اور بھارتی کمانڈر کے اچانک حملے کے باوجود پاکستانی فائٹرز پٹھان کوٹ پہنچ گئے اور دشمن کے کئی طیارے تباہ کردیے۔ اسکواڈرن لیڈر حیدر نے سب سے پہلے طیارے کو فکسڈ گن حملوں سے نشانہ بنایا۔ انہوں نے زمین پر موجود طیاروں میں سے مخصوص ڈیلٹا پنکھوں والے مگ 21s کو پہچان لیا اور ان کی طرف بڑھے۔ اسکوارڈن لیڈر حیدر نے بھارتی طیاروں کا پیچھا کیا اور پورے فضائی بیڑے کو ناکارہ کردیا۔ جنگ کے بقیہ دور میں کوئی مِگ -21 ہوا میں نہیں دیکھا گیا۔
جنگ کے بعد جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس آپریشن مین بھارت کے سات مگ 21، پانچ میسٹرس اور ایک فیئر چائلڈ سی 119 کو تباہ کر دیا گیا اور ایئر ٹریفک کنٹرول کی عمارت کو بھی نقصان پہنچا۔
آپریشن دوارکا
پاک بحریہ نے 7 ستمبر 1965 کو آپریشن دوارکا کا انعقاد کیا۔ اس آپریشن کا مقصد شمال میں لڑنے والی افواج پر دباؤ کو کم کرنا اور شمالی پاکستان کے بڑے شہروں سے بھارتی فضائیہ کی توجہ ہٹانا تھا۔ پاک بحریہ نے بھارتی شہر دوارکا پر حملہ اس لیے کیا تاکہ وہاں نصب ریڈار کو تباہ کیا جا سکے جو بھارتی بمباروں کی رہنمائی کر رہا تھا۔ اس مشن کے بنیادی مقاصد بھارتی یونٹس کو ممبئی شہر سے باہر نکالنا تھا تاکہ ان پر پاکستانی آبدوز پی این ایس غازی حملہ کر سکے۔ یہ حملہ رات کے آخری پہر شروع کیا گیا۔ پی این ایس بابر، پی این ایس خیبر، پی این ایس بدر، پی این ایس جہانگیر، پی این ایس عالمگیر، پی این ایس شاہ جہاں اور پی این ایس ٹیپو سلطان نے پہلے حملے میں حصہ لیا۔ آپریشن دوارکا کے بعد پاکستان کے شہروں پر بھارتی بمباری کے حملوں میں کمی واقع ہوئی۔
جنگ کے بعد بھارتی بحریہ کے بجٹ میں اضافہ کیا گیا جس سے نئے جہاز، میزائل اور دیگر ہتھیار خریدے گئے۔ پاک بحریہ آپریشن دوارکا کی کامیابی کی یاد میں ہر سال 8 ستمبر کو یوم فتح کے طور پر مناتی ہے۔
سرگودھا کی جنگ
پٹھان کوٹ میں تذلیل کے بعد بھارتی افواج اپنی ساکھ بچانے کے لیے سرتوڑ کوشش کر رہی تھیں۔ دشمن نے ملک کی سب سے بڑی اور اہم سرگودھا ایئربیس کو نشانہ بنانے کا منصوبہ بنایا۔ 7 ستمبر کو متعدد بھارتی طیاروں نے سرگودھا کی ایئر بیس پر حملہ کیا، لیکن پاکستانی شاہینو کا جوابی وار تیز اور فیصلہ کن ثابت ہوا۔ اس فضائی لڑائی کے دوران پاکستانی پائلٹ ایم ایم عالم نے تیس سیکنڈ سے بھی کم وقت میں پانچ بھارتی ہنٹر طیارے مار گرائے، جس سے وہ ایک عالمی لیجنڈ بن گئے۔
کالائی کنڈا ایئر بیس پر پاک شاہینون کا حملہ
7 ستمبر 1965 کو اسکواڈرن لیڈر شبیر سید نے بھارت میں کالائیکنڈا ایئربیس پر دو الگ الگ اسٹرائیک مشنز پر چار ایف 86 سابر کی پروازوں کی کمان سنبھالی۔ اس حملے میں پاکستانی پائلٹوں نے دو نامعلوم دشمن طیاروں کے ساتھ زمین پر دس کینبرا لائٹ بمباروں کو تباہ کیا۔ اسکواڈرن لیڈر شبیر سید نے فضائی لڑائی میں ایک دشمن ہنٹر کو بھی تباہ کردیا۔ غیر معمولی پرواز کی مہارت اور شاندار بہادری کے اس مظاہرے پر حکومت پاکستان نے انہیں ستارہ جرات سے نوازا۔ شبیر سید بعد میں ایئر مارشل کے عہدے پر فائز ہوئے، اور وائس چیف آف ایئر اسٹاف کے طور پر ریٹائر ہوئے۔
کالائی کنڈا فضائی حملہ بلا شبہ پاکستان کی فتح تھا۔ مشرق میں پاک فضائیہ کی فتح۔ مشرقی پاکستان کا نمبر 14 اسکواڈرن صرف ڈھاکہ میں تعینات تھا۔ ڈھاکہ ایئر بیس سے پانچ جیٹ طیاروں نے بھارت کے کالائی کنڈا ایئر فیلڈ کو نشانہ بنایا اور دشمن کو حیران کردیا۔ ایک دوسرے فضائی بیڑے کو ابتدائی اسٹرائیکس کی تکمیل کا حکم دیا گیا۔ اس بار فلائٹ لیفٹیننٹ حلیم نے حملے پر چار سابروں کی کمانڈ کی۔
لاہور کے لیے لڑائی
1965 کی جنگ کے دوران پاکستان کے دل یعنی لاہور پر کنٹرول کے لیے شہر کے ارد گرد لڑائیوں کا ایک سلسلہ چلا۔ اس کے بعد اسے لاہور محاذ یا لاہور کی لڑائی کہا گیا۔ جنگ بندی کی امید بندھی تو تاریخی شہر کے قریب برکی گاؤں پر قبضہ کرنے کے بعد دشمن کا حملہ روک دیا گیا۔
بھارتی افواج نے 5 ستمبر کی رات کو لاہور کے ارد گرد متعدد حملے شروع کیے تھے۔ نئی دہلی سے الیون کور امرتسر، لاہور، خالہ، برکی اور کھیم کرن، قصور کی سڑکوں پر آگے بڑھی۔ پاکستانی افواج کی تعداد بہت زیادہ تھی اور چھوٹی چھوٹی غلطیوں کے بعد دشمن کے دستوں کو لاہور کی فصیل کے اندر جانے کی اجازت دے دی گئی۔ بھارتی فوج کی 15 ویں انفنٹری ڈویژن نے ایکچوگل کینال پر بھی بڑا حملہ کیا، لیکن پاکستانی فوجیوں نے اسے پسپا کردیا۔
بھارتی کمانڈر کو اپنی گاڑی پر گھات لگانے کے بعد میدان جنگ سے بھاگنے پر مجبور کیا گیا اور اس کا پورا دستہ مارا گیا۔ بعد میں جنگ میں نہر لینے کی دوسری کوشش زیادہ کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ 8 ستمبر کو پاکستانیوں نے بھارتی فوجیوں پر جوابی حملے شروع کیے، جو وقت کے ساتھ شدید ہوتے گئے۔ ان حملوں سے دشمن کی کمر ٹوٹ گئی اور کھیم کرن پر دوبارہ قبضہ کر لیا گیا۔ پاکستانی افواج نے خود سے بڑے دشمن سے مقابلہ جاری رکھا اور آخر کار دشمن کو لاہور بدر کرکے شہر کا کنٹرول سنبھال لیا گیا۔