ہماری اردو، پیاری اردو…

ڈاکٹر عمیر ہارون

لگ بھگ ایک صدی سے بھی پہلے معروف شاعر حضرت داغ دہلوی نے اُردو کے متعلق فرمایا تھا:
اُردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
اُن کا یہ شعر روز بروز بڑھتی اُردو کی مقبولیت پر مہر تصدیق ثبت کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اُردو ایسی شستہ، میٹھی اور پیاری بولیاں اس کرہ ارض پر خال خال ہی ہیں۔ یہ قدیم اور وسیع زبان ہے۔ پاکستان کی قومی زبان ہونے کی حیثیت سے یہ پورے ملک کے عوام کو ایک دوسرے سے جوڑے ہوئے ہے۔ یہ صرف وطن عزیز تک محدود نہیں بلکہ دُنیا کے قریباً تمام ہی ممالک میں بولی، لکھی اور پڑھی جاتی ہے۔ اس لحاظ سے اس کا شمار دنیا بھر میں بولی جانے والی بڑی زبانوں میں ہوتا ہے۔ اردو ادب کا دائرہ کار خاصا وسیع ہے۔ عالمی سطح پر پسند کیے گئے بے شمار ناولز، کہانیاں، شاعری کے مجموعے، مضامین وغیرہ اس کے اہم خزینوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اردو صدیوں سے برصغیر میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ہندی زبان کی پیدائش بھی اسی سے مغل دور میں ہوئی، بس اُس کا رسم الخط دیوناگری اختیار کیا گیا اور اس میں سنسکرت کے الفاظ زیادہ شامل رکھے گئے۔ اس ناتے اگر اردو اور ہندی کو ایک زبان تصور کیا جائے تو یہ دُنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی چوتھی بڑی زبان کہلائے گی۔ نیشنل انسائیکلوپیڈیا کے 2010 کے تخمینے کے مطابق اردو دُنیا میں اکیسویں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے، جس کو بطور پہلی زبان بولنے والوں کی تعداد 66 ملین سے متجاوز ہے۔
اردو کا دائرہ خاصا وسیع ہے اور روز بروز اس میں وسعت پیدا ہورہی ہے۔ آئیے جائزہ لیتے ہیں اُردو دُنیا کے کس کس حصے میں سند قبولیت پارہی ہے۔ یہ بھارت کی 6 ریاستوں کی دفتری زبان کا درجہ رکھتی ہے۔ بھارت بھر میں اُردو سے بھرپور استفادہ کیا جارہا ہے۔ شاعری ہو یا نثر، گو وہاں متعصب ہندو ذہنیت کے لوگ اُردو کو اُس کا کریڈٹ نہیں دیتے، تاہم اردو کے قدردانوں کی خاصی بڑی تعداد آج بھی بھارت میں اپنا بھرپور وجود رکھتی ہے۔ برطانیہ کی آنجہانی ملکہ وکٹوریہ اردو لکھا کرتی تھیں۔ یورپ کے ملکوں میں لاکھوں افراد اردو بولتے اور ان میں سے بیشتر برطانیہ میں آباد ہیں۔ اس لیے برطانیہ میں اُردو قومی نصاب میں بحیثیت اختیاری مضمون شامل ہے۔ جب برطانیہ یورپ کی مشترکہ منڈی کا حصہ بنا تو وہاں مختلف اسکولوں میں اُردو کی تدریس بڑھی۔ انیسویں صدی میں اٹلی میں اُردو زبان و ادب کا آغاز ہوا۔ علوم شرقیہ کی تعلیم کے لیے اورنٹیل یونیورسٹی انسٹی ٹیوٹ نیپلز یورپ کا قدیم ترین ادارہ ہے۔ اطالوی زبان میں لکھی ہوئی کتاب ”اُردو کی گرامر“ 1898 میں اشاعت پذیر ہوئی۔ ناروے کی زبان نارویجن ہے، وہاں اُردو پاکستانیوں کے ساتھ پہنچی۔ ناروے میں اردو کے متعدد اخبارات شائع ہوتے ہیں۔ صرف اسی پر کیا موقوف دُنیا بھر میں شاید ہی کوئی ایسا خطہ ہو جہاں اردو زبان میں اخبارات و جرائد کی اشاعت نہ ہوتی ہو۔
قارئین کی معلومات کے لیے بتاتے چلیں کہ اسکاٹ لینڈ کے تعلیمی اداروں خصوصاً اسکولوں میں اُردو زبان کی تدریس کو کئی دہائیاں قبل قانونی حیثیت دی جاچکی ہے، اس لیے وہاں باقاعدگی کے ساتھ اُردو کی درس و تدریس کا سلسلہ جاری ہے۔ فرانس کی پیرس یونیورسٹی میں ”مدرسۃ السنہ شرقیہ“سترہویں صدی میں قائم کیا گیا تھا، جہاں متعدد زبانیں پڑھائی جاتی ہیں، وہاں اُردو کی تدریس کے لیے پروفیسر متعین کیا جاتا ہے۔ اُردو ادب سے بھی فرانسیسی زبان میں بہت تراجم ہوئے، خصوصاً اقبالؒ اور فیض کے کلام کو فرانسیسی زبان میں منتقل کیا گیا۔ جرمنی میں برلن، ہیمبرگ اور ہائیڈل برگ یونیورسٹیوں میں بھی اُردو زبان کی تدریس ہوتی ہے۔ مختصر آبادی والے ملک ڈنمارک کے جان جوتسو کیٹلر نے اُردو صرف ونحو اور لغت لکھی۔ کتاب لاطینی زبان میں ہے۔ اُردو الفاظ اور عبارتیں رومن حروف میں ہیں۔
سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں بڑی تعداد میں پاکستانی آباد ہیں۔ سویڈن میں قریباً نوے مختلف زبانیں پڑھائی جاتی ہیں جن میں ایک اُردو بھی ہے۔ ہالینڈ میں ہزاروں پاکستانی رہتے تھے اور بعض تعلیمی اداروں میں اُردو ایک اضافی مضمون کی حیثیت سے پڑھائی جاتی ہے۔ جوہانسبرگ (جنوبی افریقا) میں اُردو بولنے والوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ وہاں مساجد کے ساتھ ایک مکتب یا مدرسہ بھی عموماً موجود ہوتا ہے جہاں دینی تعلیم اُردو میں بھی دی جاتی ہے۔ یونیورسٹی آف ڈربن ویسٹ ویل میں شعبہ اُردو، فارسی اور عربی ہے، جہاں بی اے تک اُردو بطور اختیاری مضمون پڑھائی جاتی ہے۔ ایم اے اور پی ایچ ڈی بھی اُردو میں کرسکتے ہیں۔ اس مختصر سی تحریر میں پوری دُنیا میں اُردو کی وقعت و اہمیت کا احاطہ کرنا ہرگز ممکن نہیں، تاہم مذکورہ بالا حقائق کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ اُردو زبان کا ڈنکا پوری دُنیا میں بج رہا ہے اور دُنیا کے قریباً تمام ممالک میں اس کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ بہ حیثیت پاکستانی ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی قومی زبان کی قدر کریں اور اس کی ترقی و ترویج میں اپنا بھرپور حصہ ڈالیں۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔