نئے پاکستان میں مہنگائی کاطوفان

پلوشہ امتیاز

حکومتی اشاریے خواہ کچھ بھی کہیں نئے پاکستان میں پریشانی ہر چہرے سے عیاں ہے۔ تاجر حضرات معاشی بے یقینی کی صورتحال کی وجہ سے فکر مند ہیں۔ روز بروز بڑھتی مہنگائی نے ملک کے 85 فیصد متوسط طبقے کو تشویش میں مبتلا کررکھا ہے۔ غریب و مزدور طبقے کے لیے دو وقت کی روٹی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ملک کے بیشتر افراد کے لیے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہوچکا ہے۔ لوگ حالات سے مجبور ہوکر خود کشیاں کررہے ہیں، بے روزگاری کا شکار ہورہے ہیں۔

مگر ان حالات میں بھی حکمران طبقہ عملی اقدامات کی بجائے محض اپنی ضد پر قائم ہے۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ”اپوزیشن مہنگائی سے متعلق حکومت کے خلاف پروپیگنڈہ کررہی ہے۔ معیشت خراب کرنے کے ذمہ دار اپنی سیاست بچانے کیلئے عوام کو گمراہ کر رہے ہیں، تمام معاشی اشاریے مثبت سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں“۔ اقتدار میں آنے سے قبل تحریک انصاف کے رہنما اپنے دھرنوں، جلسوں اور ریلیوں میں بلند و بانگ دعوے کرتے کہ ان سے بڑا عوام کا خیر خواہ اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ وہ ملک سے مہنگائی، بے روزگاری اور کرپشن کا خاتمہ کرنے کی بات کرتے، اور یہ بھی کہتے کہ ان کے دور حکومت میں غریبوں کو ریلیف ملے گا اور عوام خوشحال ہوں گے۔

ان کے یہ دعوے سن کر عوام پاکستان کو یوں لگا جیسے یہی ان کے مسیحا اور ان کے دکھوں کا مداوا کرنے والے لوگ ہیں۔ مگر اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف اور تبدیلی کے دعویداروں نے سب سے زیادہ عوام پاکستان کو مایوس کیا ہے۔موجودہ حکمران جو کل تک کہتے تھے پٹرول کی قیمت عالمی مارکیٹ سے 45 روپے لیٹر زیادہ ہے، اور اب وہ عوام پر براہ راست اثر انداز ہونے والے حکومتی ٹیکسوں میں پے در پے اضافہ کررہے ہیں۔ جس پر شہری چیخ رہے ہیں کہ اگر غریب پاکستانیوں کے زخموں کا مداوا کرنے کی بجائے مہنگائی و گرانی کا سونامی ہی لانا تھا تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومت ان سے بہتر تھی۔

پاکستانی قوم گزشتہ 73 سالوں سے کبھی کسی فوجی ڈکٹیٹر تو کبھی کسی جمہوری حکومت کے دعوؤوں اور وعدوں کے سہارے محض جوتیاں گھساتی چلی آئی ہے مگر نتیجہ یہ نکلا کہ آج قوم کا ہر فرد ڈیڑھ لاکھ روپے سے زائد کا مقروض ہے جبکہ یہاں محنت کش کے دونوں ہاتھ خالی ہیں۔ پاکستان میں بد سے بدترین حالات میں جمہوری حکومتیں وجود میں آتی رہی ہیں لیکن کسی حکومت کے بارے میں یہ کہنا غلط نہ ہو گاکہ ابھی وہ اپنے پاو?ں پر چلنے کے قابل بھی نہیں ہوتی، اور جلد ہی عوام اس کی کارکردگی دیکھ کر مایوسی کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ عمران خان کی حکومت بھی جس رفتار سے چل رہی ہے اس میں کردار سے زیادہ گفتار سے کام لیا جا رہا ہے، اور کچھ کر دکھانے کی بجائے ہر روز ایک نئی طفل تسلی کا اعلان ہوجاتا ہے، یوں اڑھائی سالہ کے حکومتی اقدامات محض ہاتھ باندھنے کی حکمت عملی سے زیادہ نہیں۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔