دنیا بھر میں مشہور میہڑ کی مہندی

خواتین کے سولہ سنگھار میں مہندی کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ مہندی کے بغیر ہر تہوار پھیکا اور شادی بیاہ کی تقاریب ادھوری لگتی ہیں ۔۔ یوں تو مہندی کا رواج صدیوں سے چلتا آرہا ہے لیکن اس جدید دور میں بھی گھروں اور بیوٹی پارلرز میں مہندی لگانے کی رسم عام ہے ۔۔ مہندی عمومًا ہاتھ اور پاؤں پر لگائی جاتی ہے تاہم بڑھتی عمر اور سفید ہونے بالوں سے پریشان لوگ بالوں پر بھی سرخ مہندی لگالیتے ہیں۔

مہندی، جسے حنا بھی کہا جاتا ہے ایک بڑی جھاڑی نما پودا ہوتا ہے، جس کی شاخین بہت سخت اور پتلی ہوتی ہیں۔ اس کے سرخ اور چھوٹے تیز نوکیلے پتے ہوتے ہیں۔ اس کے پھول سفید ہوتے ہیں جو بعد میں سیاہ رنگ کے چھوٹے پھل میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ پتے اور پھول دونوں ہی خوشبودار ہوتے ہیں۔
مہندی یا حنا کا آبائی وطن تو شمالی افریقہ بتایا جاتا ہے لیکن اب یہ تقریباً پوری دنیا میں کاشت کیا جاتا ہے اور صوبہ سندھ میں ضلع دادو کے علاقے میہڑ میں پائی جانے والی مہندی کا شمار دنیا کی بہترین مہندی کے طور پرہوتا ہے۔ جہاں یہ بہت بڑے پیمانے پر کاشت ہوتی ہے اور بھارت ایران، مصر،عرب ممالک، یورپ، شمالی امریکا وغیرہ برآمد کی جاتی ہے۔

مہندی برصغیر پاک و ہند اور مشرقِ وسطی کے ممالک میں خوشی کے تہواروں کا لازمی حصہ سمجھی جاتی ہے ۔ بچیاں ہوں یا خواتین ، کسی بھی خوشی کے موقع کو مہندی کے بغیرادھورا تصور کرتی ہیں ۔۔اور اگر مہندی میہڑ کی ہو تو پھر کیا ہی بات ہے ۔۔
میہڑ کی مہندی کا بیج قیام پاکستان کے بعد بھارت کے علاقے فریدآباد سے لایا گیا تھا اور لوگوں نے یہاں اپنی زمین میں اس کی کاشت کی اور قدرت نے مہربان ہوکر اس بیج کو شہرتِ دوام بخشی اور آج دنیا بھر میں میہڑ کی مہندی کی دھوم ہے۔

مہندی ایک خاص قسم کے بیج سے اگائی جاتی ہے پھر کڑی محنت کے بعد اس کے پتوں کو کارخانوں تک لایا جاتا ہے جہاں مزدوروں کی مدد سے اس کو پیسا جاتا ہے ۔۔مہندی میں اب کچھ کیمیکل اور دیگر اشیا ملاکر اسے زیادہ رنگ نکھارنے کیلئے بنایا جاتا ہے ۔۔ جس کے بعد اسے ڈبوں اور تھیلیوں میں پیک کیا جاتا ہے ۔۔جہاں سے ملک اور ملک سے باہر اسے فروخت کے لئے بھیج دیا جاتا ہے ۔
میہڑ کی مہندی پہلے میہڑ شہر کے چاروں طرف اگائی جاتی تھی اور یوں سمجھیے کہ جیسے گھر گھر مہندی کے پودے لگے ہوتے تھے مگر اب دیہات سے نقل مکانی نے لوگوں کو شہروں کے اردگرد آباد ہونے پر مجبور کردیا ہے جس کے باعث شہر کے آس پاس کی زمینیں سونے کے بہاو ہوگئی ہیں ۔۔جس کی وجہ سے آس پاس کی مہندی اب دور دراز کے کھیتوں تک محدود ہوگئی ہے۔
ملک اور بیرون ملک اپنی خوشبو اور سرخ رنگ کی وجہ سے پہچان رکھنے والی میہڑ کی مہندی کا فصل ایک بار بویا جاتا ہے جسے سال میں دو مرتبہ کاٹ کر سکھاکر مشین میں پیس کر مارکیٹ میں لایا جاتا ہے ۔۔
اب سے چند سال پہلے پورے میہڑ شہر میں 15 مہندی کے کارخانے ہوتے تھے لیکن اب صرف 4 کارخانے اور 40 دکانیں رہ گئی ہیں اور کچھ لڑکے آج بھی مہندی کے تھیلے اپنے ہاتھوں میں لیکر ریلوے اسٹیشن اور سپر ہائے وے پر بیچنے کے لئے کھڑے ہوتے ہیں۔
مہندی نہ صرف شادی بیاہ اور خصوصی تقریبات کے موقع پر لگائی جاتی ہے لیکن سندھ کے درگاہوں اور مزارات پرعرس کے موقع پربھی مہندی نکالی جاتی ہے ۔۔پوری اسلامی دنیا میں جہاں بھی کربلا کے شہدا کا چھ محرم کا جلوس نکلتا ہے وہاں کربلا کے شہیدوں شہزادہ قاسم کی یاد میں مہندی نکالی جاتی ہے ۔۔ میہڑ کی مہندی کراچی سمیت ملک کے دیگر سرکاری اور نجی اداروں میں تحفے کے طور پر بھی بھیجی جاتی ہے۔
جیسا کہ اس وقت سندھ میں پانی کی شدید قلت اور حکومتی سرپرستی نہ ہونے کے باعث مہندی کے آبادگار پریشان ہیں ۔۔اور مارکیٹ میں مہندی کو دیگر فصلوں کے مقابلے میں اچھی قیمت نہیں مل رہی ۔۔لیکن اس کے باوجود میہڑ کی مہندی کی افادیت اپنی جگہ برقرار ہے۔۔
میہڑ کی مہندی کے ٖفصل کو اگر سرکاری پذیرائی مل جائے تو ایک طرف آبادگار خوشحال ہوسکتے ہیں دوسری جانب کارخانے لگنے سے بیروزگاری کا خاتمہ ہوسکتا ہے ۔۔۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔