کیا ہمارا معاشرہ اپنی مرضی کی شادی کے خلاف ہے؟

 

امیر حمزہ

شادی بیاہ کا رشتہ انسان کی فطری ضرورت اور معاشرتی نظام کی بہتری کے لیے لازمی عمل ہے۔ تمام مذاہب میں شادی اور نکاح کی ترغیب دی گئی ہے، اسلام نے نہ صرف نکاح کی ترغیب دی، بلکہ اسے لازمی قرار دیا اور اس کے مختلف پہلوؤں سے متعلق مسلمانوں کی رہنمائی بھی کی۔
ان ہی پہلوؤں میں سے ایک پہلو اجازت یا مرضی کا ہے۔ اجازت یا مرضی سے مراد شادی یا نکاح کے رشتے میں بندھنے والے دو انسانوں کا ایک دوسرے کو قبول کرنا ہے۔ یہ ایک فطری ضرورت ہے، سو شادی کے معاملے میں انسان کی مرضی کا شامل ہونا اہم ہے۔
مذہب کے زاویے سے دیکھا جائے، تو اسلام ہمیں بندھن میں بندھنے والے دو انسانوں سے اجازت لینے اور ان کی مرضی جاننے کی ہدایت کرتا ہے۔
مگر افسوس، ہمارا معاشرہ باقی ساری باتوں کے ساتھ ساتھ اس ضروری بات کو بھی نظر انداز کرتا نظر آتا ہے۔ آج دنیا میں کہیں تو نکاح یا شادی کی روایت کو ختم کیا جارہا ہے اور کہیں، دوسری انتہا پر جاتے ہوئے، آج بھی شادی کے رشتے میں بندھنے والوں کی مرضی شامل ہی نہیں کی جاتی۔ یہ دونوں صورتیں شدت رکھتی ہیں، بہت کم ہی لوگ ہیں جو اسلام کے بتائے ہوئے متوازن راستے کو اختیار کرنے کے لئے تیار ہیں۔
نکاح میں لڑکے اور لڑکی سے قبولیت کے حوالے سے کم ازکم تین مرتبہ پوچھا جاتا ہے، جسکا جواب ”قبول ہے، قبول ہے” سے دیا جاتا ہے، لیکن حقیقی معنوں میں ہم اس مرضی اور قبولیت کی اہمیت کو سمجھ ہی نہیں پارہے۔ ہمارے ملک کے بیشتر علاقوں میں آج کے اس دور میں بھی بچوں کی پیدائش کے بعد ہی ان کے رشتے طے کردیے جاتے ہیں، اس عمر میں ہی انہیں کسی کے نام سے منسوب کردیا جاتا ہے جب وہ اپنا نام بھی لکھنا نہیں جانتے۔ اگر کچھ بچپن میں بچ جائیں تو نوجوانی میں یہ سزا بھگتنے کو تیار ہوجائیں کہ انہیں پوچھے بنا ہی انکا رشتہ طے کردیا جائے گا۔ اگر انکار کردیا جائے یا کوئی سوال اٹھا لیا جائے تو وہ سوال رشتے پر نہیں بلکہ غیرت پر سوال تصور کیا جاتا ہے اور اسکا جواب زبردستی نکاح یا قتل کی صورت میں بھی مل سکتا ہے۔
نکاح کے بعد جن دو لوگوں نے زندگی ساتھ گزارنی ہے، ان کی مرضی کا شامل نہ کیا جانا زیادتی ہے اور معاشرے میں ایک مستقل بگاڑ کا سبب ہے۔ اس بگاڑ کا خمیازہ ہم نوجوان نسل کی ہماری مذہبی اور معاشرتی اقدار سے بغاوت کی صورت میں اٹھا رہے ہیں۔ بہت سے نوجوان گھروں سے بھاگ جاتے ہیں، کچھ خودکشی جیسے شدید عمل کو بھی اختیار کرتے ہیں۔ اس صورت میں ہمیں اس چیز پر غور کرنا چاہیے کہ جو بچے گھروں سے بھاگ کر جائیں گے وہ آگے اپنے بچوں کی تربیت کیسے کریں گے؟ کیا اس سے ایک مستقل بگاڑ پیدا نہیں ہوگا؟
ہمارے معاشرے کے قدامت اور اناپرست لوگوں کو اپنی ان اقدار کو اور غیرت کے ان خود ساختہ معیارات کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ اسلام کے نام پر اپنی ذاتی انا کو تسکین پہنچانے کے اس عمل کو اب رکنا چاہیے۔ اسلام اور باقی مذاہب تو پہلے سے ہی مرضی کا اختیار دیتے ہیں اور اجازت کی ترغیب بھی۔ لہذا ان لوگوں کو اپنی اولاد سے نہ صرف انکی مرضی پوچھنی چاہیے بلکہ انہیں اتنی اسپیس بھی دینی چاہیے کہ وہ اپنی مرضی کا اظہار بھی کرسکیں۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔