بھارت: ماؤ نواز باغی پھر متحرک

دنیا جسے بھارت یا انڈیا کے نام سے جانتی ہے، وہ ایک ایسی ریاست ہے جو ظلم، استحصال، عدم مساوات اور جنگل کے قانون کی بنیاد پر قائم ہے۔ بھارت میں ایک طرف مذہب کے نام پر مسلمانوں، سکھوں اور عیسائیوں کو تفریق اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو دوسری جانب لسانی اقلیتیں اکثریت کے ناروا سلوک سے دوچار ہیں، اس کے ساتھ بھارت میں نچلی ذات کے ہندو اونچی ذات کے ہندوؤں کے ظلم کا شکار ہیں، عورتوں کا مَردوں کی ہوس کی بھینٹ چڑھنا معمول ہے، سب سے بڑا مسئلہ بھارت میں طبقاتی تفریق کی بڑھتی خلیج اور ہر روز غربت کی دلدل میں مزید دھنستے کروڑوں غریب ہیں۔ یہ ہے وہ ”شائننگ انڈیا“ جس کا اصل اور بدصورت چہرہ بھارتی میڈیا دکھانے کی ہمت نہیں رکھتا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایسے دیس میں جہاں ہر طرف ظلم کی سیاہی ہو، جہاں لوگوں کی اکثریت مذہب، رنگ، صنف نازک ہونے کے باعث کچلی جارہی ہو، وہاں ردعمل میں تشدد نہ جنم لے۔ یعنی بہ قول شاعر:
ظلم رہے اور امن بھی ہو
کیا ممکن ہے تمہیں کہو

یہی وجہ ہے کہ جو بھارت عدم تشدد کا پرچار کرنے والے گاندھی جی کو اپنی پہچان بتاتا ہے، وہاں جگہ جگہ آگ لگی ہوئی اور لوگوں کا خون بہہ رہا ہے۔ حال ہی میں ریاست چندی گڑھ میں ماؤ نواز باغیوں کے ہاتھوں بھارتی پیراملٹری فورس اور پولیس کے 22 اہل کاروں کا قتل بھی ایک ایسا واقعہ ہے جو بھارت کی خوف ناک صورت حال کی بھرپور منظرکشی کرتا ہے۔ یہ واقعہ وسطی بھارت کی ریاست چھتیس گڑھ میں پیش آیا۔ یہ علاقہ ریاست مدھیہ پردیش کا حصہ تھا، جسے 2000 میں الگ صوبے کا درجہ ملا۔ چھتیس گڑھ ان بھارتی ریاستوں میں شامل ہے، جہاں کمیونزم کے نظریے پر کاربند اور اس کے نفاذ کے لیے عسکری جدوجہد کرتے ماؤ نواز باغی سرگرم ہیں اور حکومت کے لیے دردسر بنے ہوئے ہیں۔ گذشتہ اتوار کو قانون نافذ کرنے والے اہل کاروں اور ماؤنواز باغیوں کے درمیان چار گھنٹے تک جاری رہنے والے مقابلے اور اس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں ہلاکتوں کا یہ واقعہ گذشتہ چار سال کے دوران پیش آنے والا اس نوعیت کا خونیں ترین واقعہ ہے، جس ہلاکتوں کے علاوہ 30 سرکاری اہل کار زخمی بھی ہوئے اور یہ سطور لکھے جانے تک ایک درجن اہل کار لاپتا تھے۔
اس واقعے نے دہلی سرکار کو، جو پہلے ہی سکھوں کی تحریک سے پریشان ہے، مزید بوکھلاہٹ کا شکار کردیا ہے۔ وزیرداخلہ امیت شاہ سب چھوڑ چھاڑ کر چھتیس گڑھ پہنچے اور حالات کا جائزہ لیا۔
ایک زمانے میں بھارت کے ماؤ نواز باغیوں کی کارروائیوں کے بہت چرچے تھے، لیکن گذشتہ چند سال سے میڈیا میں ان کے حوالے سے بہت کم خبریں آرہی تھیں۔ بھارت میں ماؤ نواز باغی تحریک کی شروعات 1960 کے عشرے میں ریاست مغربی بنگال کے دوردراز جنگلات سے ہوئی۔ مغربی بنگال کے جس گاؤں میں یہ عسکریت پسند تحریک پروان چڑھی اس کا نام نکسل باڑی تھا، چناں چہ اس نام کی مناسبت سے ان کمیونسٹ باغیوں کو ”نکسلائٹس“ بھی کہا جاتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ان مزاحمت کاروں نے وسطی اور مشرقی بھارت کے وسیع علاقوں میں اپنی عمل داری قائم کر رکھی ہے۔ ان کی عمل داری والے علاقے کو ”سرخ راہداری“ کا نام دیا جاتا ہے۔ ماؤ نواز باغی محدود نہیں بلکہ بہت وسیع علاقے میں اپنا وجود برقرار اور اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں، جن بھارتی ریاستوں کے مختلف علاقوں میں ان کا اثررسوخ ہے، ان میں جھاڑکنڈ، مغربی بنگال، اڑیسہ، بہار، چھتیس گڑھ اور آندھرا پردیش کے علاوہ اتر پردیش اور کرناٹکا کا علاقہ بھی شامل ہے۔
بھارتی حکام کے مطابق ماؤ باغیوں اور ان کے حمایت یافتہ گروہ بھارت کے 6 سو کے قریب اضلاع میں سے ایک تہائی میں اور بھارت کی 28 میں سے 20 ریاستوں میں سرگرم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سابق بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے اس مسئلے کو بھارت کی داخلی سلامتی کا سب سے بڑا چیلنج قرار دیا تھا۔ اس تنازع میں اب تک چھ ہزار سے زائد لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ماؤ نواز باغیوں کا کہنا ہے کہ وہ ان ریاستوں میں ایک کمیونسٹ انقلاب کے لیے جدوجہد کررہے ہیں، ان کی جنگ مقامی غریب لوگوں کے حقوق کے لیے ہے اور وہ غریب کسانوں کی خاطر زمین اور علاقے کے وسائل پر اپنا حق چاہتے ہیں۔ 2009 میں ماؤ نواز باغیوں نے مغربی بنگال کے لال گڑھ ضلع کا کنٹرول حاصل کرلیا تھا جو کولکتہ سے صرف 250 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ 2010 میں ان کے خلاف بھارت کی مختلف ریاستوں میں ایک آپریشن شروع کیا گیا، جس میں 50 ہزار کے قریب سیکیورٹی اہلکاروں نے حصہ لیا اور ماؤ نواز باغیوں کو ان کے جنگلات میں پرے دھکیل دیا۔ ماضی میں بھارتی حکومت نے ماؤ نواز باغیوں کو مذاکرات کی دعوت دی تھی، جس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا، اس کے برعکس ماؤ نواز باغیوں نے حکومت سے ان کے علاقوں سے سیکیورٹی فورسز واپس بلانے کا مطالبہ کر ڈالا۔ گزشتہ سال بھارتی حکومت نے ان باغیوں سے مذاکرات کی پیشکش واپس لے لی۔
چھتیس گڑھ میں ماؤنواز باغیوں کی مذکورہ کارروائی بھارت خاص طور پر اس ریاست میں ان کی بڑھتی ہوئی طاقت کا پتا دیتی ہے۔ چھتیس گڑھ میں ماؤ نواز باغیوں کی سرگرمیاں اس لیے بھی اہمیت اختیار کرجاتی ہیں کہ یہ سونے اور ہیرے جیسی بیش قیمت اشیاء سمیت معدنیات سے مالا مال ریاست ہے، جہاں ایک طرف استحصال کا شکار اور افلاس کے گڑھے میں گِرے کان کُن اس عسکریت کی فکر کو اپنا سکتے اور ان کی طرف راغب بھی ہوسکتے ہیں، دوسری جانب سرمائے کا وسیلہ ماؤ نواز باغیوں کے ہاتھ آسکتا ہے۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ عالمی وبا کورونا کے بعد بھارت میں ہونے والے سخت لاک ڈاؤن کے باعث غربت وافلاس اور بے روزگاری میں اضافے نے ماؤ نواز گوریلوں کے لیے حالات نہایت سازگار کردیے ہیں اور غربت اور بے کاری سے تنگ آجانے والے کسان تیزی سے ان کی تحریک کا حصہ بن رہے ہیں۔ نیکسلائٹ کے نام سے بھی پہچانے جانے والے ان عسکریت پسند کمیونسٹوں کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ غریبوں کے لیے جنگ لڑرہے ہیں، جنہیں ایشیا کی عظیم ترین معاشی طاقتوں میں سے ایک بھارت میں معاشی ترقی اور دولت کی ریل پیل سے کچھ نہیں مل رہا۔
اگرچہ وزیر داخلہ امیت شاہ نے اپنے رہنما نریندر مودی اور بی جے پی کے دیگر قائدین کی طرح حسب معمول بڑھک مارتے ہوئے کہا کہ حکومت اس طرح کی کارروائیاں برداشت نہیں کرے گی اور ماؤ نواز باغیوں کو مناسب جواب دیا جائے گا، لیکن لگتا ہے کہ بھارتی حکومت کو بہت کچھ برداشت کرنا پڑے گا اور وہ تشدد کا جواب تشدد سے دے کر بھی اس طوفان کا راستہ نہیں روک پائے گی۔ اس ضمن میں سیکیورٹی ایکسپرٹس کا کہنا ہے کہ ماؤ نواز باغی بھارت کے لیے سب سے بڑا داخلی خطرہ بن گئے ہیں۔ جس کے باعث حالات اس طرف جارہے ہیں کہ لگتا ہے دائیں بازو کی انتہاپسند حکومت کے سربراہ نریندر مودی کے ان بائیں بازو کے شدت پسند عناصر کے خلاف وسیع پیمانے پر اور پوری شدت کے ساتھ فوجی آپریشن شروع کرنا پڑے گا۔ سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے، پچھلے کچھ سال کے دوران ماؤنواز باغیوں کو اپنے عمل داری والے علاقوں میں دوبارہ منظم ہونے کا موقع ملا ہے، جس کے بعد ان کی سرگرمیاں اور کارروائیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ کورونا وبا کے پہلے دور میں ماؤ نواز باغیوں نے سیکڑوں افراد کو بھرتی کیا ہے، جن میں بڑی تعداد میں خواتین بھی شامل ہیں۔ جنگلات میں رہائش پذیر نئے بھرتی شدہ ماؤ نواز باغیوں کو بھارتی سیکیورٹی فورسز کے گشت اور آمدورفت کے بارے میں آگاہ کرتے رہتے ہیں، جس سے باغیوں کو کارروائیاں کرنے اور فرار ہونے میں بہت مدد ملتی ہے۔
خود کو دُنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت ٹھہرانے والے ملک میں ایک طرف تیزی سے ابھرتے یہ ماؤنواز باغی ہیں اور دوسری جانب سکھ کسانوں کی تحریک، ایسے میں عنقریب بھارت کن حالات سے دوچار ہونے والا ہے، اس کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔