مفادات کی سیاست

حافظ احمد

کچھ دن قبل ترکی کے ایک اخبار روزنامہ سٹار نے اس سرخی کے ساتھ خبر چھاپی:
"ماکرون: صدر ایردوان سے ہماری ملاقات لازمی ہے۔”
اور اس کے تحت یہ تفصیلات ذکر کیں:
فرانسیسی صدر امینول ماکرون نے نیٹو سربراہی اجلاس کے دائرہ کار میں اپنی اور صدر رجب طیب ایردوان کی ملاقات کی خواہش کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک اچھی پیش رفت ہے، ہمیں ایک دوسرے سے کھل کر بات چیت کرنے کی ضرورت ہے۔ گو کہ ترک صدر کے ساتھ ہمارے نظریاتی اختلافات پائے جاتے ہیں تو بھی اس معاملے پر بات چیت کرنا فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔

پھر اس کے بعد فرانسیسی اخبار لے فیگارو نے یہ خبر چھاپی کہ: صدر ماکروں نے نیٹو اجلاس سے قبل صدر ایردوان سے ملاقات کا اعلان کیا ہے۔ پھر ان دونوں کی ملاقات ہو بھی گئی جس کی تصویریں بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔

دراصل ترکی نیٹو اتحاد کا حصہ ہے اور اس کے لیے اپنے اتحادی ممالک سے کسی قسم کا پنگا لینا ممکن نہیں۔ رجب طیب اردگان پوری دنیا کے مسلمانوں کی آنکھوں کے تارے بنے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ کوئی ایسی حرکت نہیں کر سکتے جس سے ان کے نیٹو کے ساتھ اتحاد کو نقصان پہنچے۔ کچھ دنوں قبل عالمی شہرت یافتہ ریسرچ اسکالر شیخ عمران نذر حسین صاحب نے بھی اپنے ایک ویڈیو بیان میں ترکی کے نیٹو سے جڑے ہونے کی مذمت کی تھی اور وہ مذمت اسی بنا پر تھی کہ ترکی عالمِ کفر کا مقابلہ کیسے کرے گا جبکہ وہ خود ان کا اتحادی بنا بیٹھا ہے۔

رجب طیب اردگان نے کئی بار بیت المقدس کے لیے آواز اٹھائی اور کئی بار فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی اور اسرائیل کے دہشتگردانہ رویے کی مذمت کی لیکن اس کے بعد کیا ہوا؟ ترکی کے اسرائیل سے معاملات اور تجارت بدستور برقرار رہی۔
اسی طرح آپ کو یاد ہوگا کہ پچھلے سال جب فرانس کے صدر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی اور گستاخی کرنے والے کا دفاع کیا تو اس وقت رجب طیب اردگان نے بہت سخت آواز اٹھائی۔ یہاں تک کہ فرانس کے صدر کو ذہنی مریض تک کہہ دیا لیکن لیکن۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ پتہ ہے آپ کو؟
اس کے چند مہینے بعد ہی جب فرانس کے صدر کو کورونا ہوا تو رجب طیب اردگان نے اس کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا اور جلد صحتیابی کی دعا کی۔

میں کوئی عالمی سیاست کا چیمپیئن نہیں ہوں نہ کوئی تجزیہ نگار ہوں بس بتانا یہ چاہ رہا ہوں کہ دورِ حاضر کی عالمی سیاست محض اپنے اپنے قومی مفاد کی سیاست ہے۔
اس دور میں حکومتوں کے لیے وطن پرستی سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے (اب یہ الگ بحث ہے کہ وہ مجبور ہیں یا خود مختار)

بہرحال اقبال پہلے ہی کہہ چکے تھے؛

گفتار سياست ميں وطن اور ہی کچھ ہے
ارشاد نبوت ميں وطن اور ہی کچھ ہے
اقوام جہاں ميں ہے رقابت تو اسی سے
تسخير ہے مقصود تجارت تو اسی سے
خالی ہے صداقت سے سياست تو اسی سے
کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے
اقوام ميں مخلوق خدا بٹتی ہے اس سے
قوميت اسلام کے جڑ کٹتی ہے اس سے

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔