دنیا کے سب سے بڑے صحرا اور سب سے بڑے جنگل کی حیرت انگیز رشتہ داری

محمد عبدہ

ہماری پُراسرار دنیا میں کوئی چیز اور کام بےمعنی یا بےمقصد نہیں ہے۔ اگر میں آپ سے یہ کہوں کہ افریقہ میں واقع دنیا کا سب بڑا صحرا صحارا نہ ہوتا تو جنوبی امریکہ میں واقع دنیا کا سب سے بڑا جنگل ایمازون ختم ہوچکا ہوتا تو آپ کو یہ بات عجیب لگے گی، مگر یہ سچ ہے۔ چلیں آپ کو ان دونوں کی آپس میں رشتہ داری بتاتا ہوں جس کی وجہ سے ہم انسان زندہ ہیں جس دن یہ رشتہ داری ختم ہوگئی ہم سب مر جائیں گے۔

صحرائے اعظم یا صحرائے صحارا روئے زمین پر دنیا کا سب سے بڑا صحرا ہے، جس کا رقبہ 90 لاکھ مربع کلومیٹر یعنی پاکستان سے 11 گنا بڑا ہے۔ براعظم افریقہ کے ایک تہائی حصے پر پھیلا ہوا یہ صحرا دس ممالک پر مشتمل ہے، جن میں مصر، الجیریا، چاڈ، لیبیا، مالی، موریطانہ، مراکش، نائجر، سوڈان، مغربی صحارا اور تونیشیا شامل ہیں۔ دوسری طرف ایمازون جنگل جنوبی امریکہ میں واقع ہے، جس کا رقبہ 40 لاکھ مربع کلومیٹر یعنی پاکستان سے 5 گنا بڑا ہے۔ یہ جنگل 9 ممالک تک پھیلا ہوا ہے، جن میں برازیل، کولمبیا، پیرو، وینیزویلا، ایکویڈر، بولیویا، گیانا، سرینام اور فرانسیسی گیانا شامل ہیں۔

زمین کی 20 فیصد آکسیجن صرف ایمازون کے درخت اور پودے پیدا کرتے ہیں۔ دنیا کے 40 فیصد جانور، چرند پرند، حشرات الارض یہاں رہتے ہیں اور اس کے دریاؤں میں مچھلیوں کی ہزاروں اقسام پائی جاتی ہیں۔ اس جنگل کا 70 فیصد رقبہ ابھی تک انسانی دسترس سے باہر ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں 6000 سال قبل صحارا کے اندر واقع جھیل چاڈ کرہ ارض پر تازہ پانی کی سب سے بڑی جھیل ہوتی تھی، جس کا رقبہ تقریباً 360000 مربع کلو میٹر تھا۔ اب یہ جھیل خشک ہوکر محض 335 مربع کلومیٹر رہ گئی ہے۔ خشک زدہ جھیل چاڈ کا علاقہ یہ علاقہ دنیا بھر میں ماحولیاتی گردو غبار کا بڑا ذریعہ ہے اور یہ زرخیز مٹی براعظم افریقہ سے سفر شروع کرکے دنیا کے دوسرے بڑے سمندر اوقیانوس کو عبور کرکے براعظم جنوبی امریکہ پہنچتی ہے، جہاں یہ ایمازون کے ٹراپیکل رین فاریسٹ کی زرخیزی کو قائم رکھنے میں اپنا اہم اور بنیادی کردار نبھاتی ہے، یعنی ایمازون کے بارشی جنگلات کی حیات کا تعلق صحرائے صحارا کی سرخ، زرخیز مٹی سے ہے۔

رائل ہال وے یونیورسٹی کے شعبہ جغرافیہ کے ڈاکٹر سائمن کہتے ہیں ایمازون میں ہونے والی بارشیں معدنیات کے بڑے حصے کو بہا لے جاتی ہیں اور اس کی زرخیزی کی کمی صحارا کی زرخیز اور معدنیات سے بھرپور مٹی پورا کرتی ہے۔ ورنہ ایمازون جنگل ایک صدی کے اندر ختم ہوجائے، اور اگر ایمازون ختم ہوگیا تو دنیا بھر کے موسم اتنا زیادہ بدل جائیں گے کہ چرند پرند حشرات انسان سمیت کوئی بھی زندہ نہیں رہ سکے گا۔ سائنسدان کہتے ہیں گرد و غبار کی یہ ہجرت دنیا کے پُراسرار نظام کا عجیب و غریب مگر مکمل ترین تناسب ہے، جس میں ہلکا سا بھی رد و بدل ہوجائے تو دنیا کا نظام بدل جائے۔

یہ مٹی اگر یورپ کا رخ کرلے تو یورپ میں زندہ رہنا مشکل ہو جائے، یہ ہوائیں راستے میں ختم ہو جائیں تو کسی کے کام نہ آئیں، ایشیا میں کہیں گر جائیں تو نظام بگڑ جائے، چاڈ کی یہ زرخیز مٹی وہاں کسی کام کی نہیں رہی تو قدرت اسے دوسرے براعظم میں ٹھیک اس جگہ پہنچا رہی ہے جہاں اس کی ضرورت ہے۔ قدرت کا یہ ایسا کھیل ہے جو بہترین حکمت سے بھرپور ہے جو حضرت انسان کی خدمت کےلئے کھیلا گیا ہے اور ہزاروں سال سے کھیلا جارہا ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے مگر کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے۔ میں قدرت کی اس عظیم حکمت پر انگشت بدنداں ہوں کہ وہ ہوائیں، جن کے بدلنے سے مون سون کا نظام ایسا بدلا کہ روئے زمین پر سب سے بڑی جھیل لق و دق صحرا میں بدل گئی، وہی ہوائیں اس صحرا کی مٹی کو ہزاروں کلومیٹر دور دنیا کے سب سے بڑے بارانی جنگلات کی زرخیزی کے ذریعے کے طور پر اڑا لے جاتی ہیں۔

زندگی کبھی ختم نہیں ہوتی، بس جگہ بدل لیتی ہے۔ ایک کی موت دوسرے کی زندگی کا تازیانہ ہوتا ہے۔ مرنے سے پہلے کسی کو زندگی بخش دو کہ مرنے کے بعد بھی فیض یاب ہوتا رہے۔ ایسا ہوگیا یا ایسا کردیا تو بتائیں زندگی میں اور کیا چاہیے۔ جلدی سے مر جائیں تاکہ کوئی دوسرا خوشی سے جی اٹھے۔ بلا شبہہ قدرت کے فیصلے انوکھے، حیرت انگیز اور ہماری فہم سے کہیں عظیم ہوتے ہیں۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔