جانے دو

محمد علی

تنگیِ دل بغض و گلا جانے دو
ہم نے انہیں معاف کیا جانے دو

شبِ وصل سارا مزہ خاک ہوا
جب چاند چڑھا اس نے کہا جانے دو

ہم نے دل کے عوض جو دل مانگا
کیا دام لگا اس نے کہا جانے دو

مختصر یہ کہ ہاتھوں میں لکیریں نہ رہیں
اور کیا کیا گیا کیا کیا لٹا جانے دو

سمندر تو مجھے دل میں بسا ہی لے گا
نہ روکو مجھے نا خدا جانے دو

طالب کو رلاتی ہیں وہ ساری یادیں
وہ نور جبیں دستِ حنا جانے دو

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔