اس ملک خداداد پر مولا کا کرم ہو
14 اگست 1947 ، 27 رمضان المبارک کو ایک ایسا ملک وجود میں آیا جس کی بنیاد لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پر رکھی گٸ ۔ یعنی اللہ ایک ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ ملک کا نام پاکستان رکھا گیا جس کے معنی پاک جگہ کے ہیں ۔ پاکستان کے جھنڈے کو ایسے تر تیب دیا گیا کہ اس میں ارکان اسلام ، اکثریت اور اقلیت کی بھر پور نشاندہی کی گٸ ۔ ترانے میں ایسے الفاظ کا استعمال کیا گیا جس میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کا مکمل تصور اور مقصد واضح ہو گیا ۔ قاٸداعظم مسلمانوں کی رہنماٸی کے لۓ موجود تھے یہ آزاد ملک انھی کی انتھک محنت کا نتیجہ ہے کیونکہ انھوں نے اپنی ذہانت، قابلیت اور انداز سے پریکٹیکلی اس سوچ پر کام کیا۔
اگر ہم زیادہ دور نہ جاٸیں تو سر سید احمد خان نے لوگوں میں تعلیم حاصل کرنے کا شعور اجاگر کیا اور اس وقت کے نوجوانوں کو درست سمت کی طرف گامزن کرنے کی کوشش کی تاکہ وہ اپنے وجود کو اور اس دنیا میں آنے کے مقصد کو سمجھ سکیں اورخود کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کروا سکیں۔ علامہ اقبال نے مسلمانوں کے لۓ ایک آزاد ملک کاخواب دیکھا جس میں دین اسلام فروغ پائے اورمحبتیں پروان چڑھیں زندگی حقیقی مقصد کی طرف گامزن ہو۔ مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی نے قاٸد اعظم کا بھر پور ساتھ دیا اور قاٸد اعظم نے پریکٹکلی ان چیزوں پر کام کرتے ہوۓ ایک آزاد ملک حاصل کر لیا۔
جب اقوام شدید پستی اور جہالت میں ڈوب جاتی ہیں تو یہ نظام قدرت ہے کہ اللہ ان میں ایک ایسی ہستی کو بھیجتا ہے جو انکو گمراہی اورجہالت سے نکال کر روشنی کی طرف لاتی ہے اگر ہم اہل عرب کی بات کریں تو وہ بدترین زندگی گزار رہے تھے۔ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو انکے درمیان بھیجا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں جہالت اور گمراہی کے اندھیروں سے نکال کر دین اسلام کی روشنی سے منور کیا۔ لوگوں کو اپنے اخلاق کی بدولت اپنا بنایا۔ لیکن اس کے لۓ یہ شرط بھی رکھ دی کہ اللہ تب تک اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جو خود اپنا حال نہ بدلے۔ اس وقت ہم جہاں کھڑے ہیں وہ بہت نازک دور ہے75 سال گزر جانے کے باوجود ہمارے اور ہمارے ملک کے حالات بد سے بدترہوتے چلےجا رہے ہیں ہم اس ملک کے حصول کا اصل مقصد بھول چکے ہیں کہ ہمارے بزرگوں نے کتنی قربانیوں کے بعد اس ملک کو حاصل کیا تھا۔
ہم آج بھی اسی فرسودہ نظام میں زندہ ہیں جوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری سے پہلے تھا اور جو قاٸد اعظم کے ایک آزاد ملک کی صورت میں پاکستان بنانے سے پہلے تھا۔ اس کی وجہ وہی فرسودہ نظام ہے جس کی بھینٹ ہم سب چڑھتے چلے آرہے ہیں وہی امید وار جن کے باپ دادا کو ہمارے باپ دادا ووٹ دیتے تھے ہم بھی انھی کی اولادوں کو ووٹ دیتے ہیں۔ چند روپوں اور نوکریوں کی خاطر مستقبل قربان کر دیتے ہیں۔ گھر میں بیٹھ کر صرف باتیں کر سکتے ہیں مگر ووٹ کا صحیح استعمال نہیں کرتے یہ تو کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں اس نے کون سا فاٸدہ دینا ہے لیکن اپنے حق کے لۓ آواز بلند نہیں کرتے۔ ایک بچہ جو بول نہیں سکتا وہ بھی تکلیف ہونے پر رو رو کر سب کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے اور اپنی تکلیف کا احساس دلاتا ہے اگر ہم صحیح معنوں میں اس ملک میں تبدیلی چاہتے ہیں تو ہمیں اس فرسودہ نظام سے نکلنا ہوگا اور ہمیں یہ ملک ان لوگوں کے ہاتھوں میں دینا ہو گا جو واقعی ملک میں بہتری لانے کے اہل ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو ہمارے ملک کے کچھ بڑے مساٸل ایسے ہیں جن کو حل کرنے سے 99% مساٸل حل ہوسکتےہیں۔ سب سے پہلا مسٸلہ تعلیم اور تعلیمی نظام ، دوسرا مسٸلہ بہتر طبی سہولیات کی فراہمی ، تیسرا مسٸلہ معیشت کو درست سمت کی جانب گامزن کرنا چوتھا مسٸلہ انصاف سب کے لۓ برابری کا اصول اور پانچواں مسٸلہ بہترین روزگار کا حصول ہے لیکن اس کے لۓ ضروری ہے کہ ہمارا نوجوان طبقہ تعلیم حاصل کر کے دوسرے ممالک میں کام کرنے سے زیادہ ملک میں رہ کر اس کی خدمت کو ترجیح دیں اور ان مساٸل کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اگر ہم بہتر انداز میں ان مساٸل پر قابو پا لیں گے تو کوٸی شک نہیں جب پاکستان اور پاکستانی دن دگنی رات چگنی ترقی کریں گے۔