مہذب انسان کی ترقی و تہذیب کی کہانی

 

نثار نندوانی

ابتدائی دور میں جب دنیا تخلیق ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے انسان کو حضرت آدم علیہ السلام اور اماں حوا کے روپ میں زمین پر اتارا، پھر اس جوڑے نے اللہ پاک کے حکم سے مزید انسانوں کے جنم کا بیڑا اٹھایا اور زمین پر جانوروں کے ساتھ ساتھ انسانی قدموں کی چاپ بھی سنائی دینے لگی۔

ابتدا میں انسانوں نے غاروں کو اپنا مسکن بنایا۔ اس کی وجہ اپنے آپ کو خونخوار جنگلی جانوروں سے تحفظ فراہم کرنا تھا۔ انسان ان غاروں کے دہانوں کے آگے بڑے بڑے پتھر اور درختوں کے بڑے تنوں کو رکھ کر خود کو بچاتا رہتا تھا۔ کچھ عرصے بعد جب انسان بقائے باہمی کے تحت زراعت کی طرف متوجہ ہوا تو گروہوں اور قبیلوں کی صورت میں یکجا رہنے لگا۔ یوں محلے اور گاؤں وجود میں آنے لگے۔ اب انسان کو جنگلی جانوروں سے زیادہ اپنے آس پاس رہنے والوں سے خوف محسوس ہونے لگا اور لوگ ایک دوسرے کے دشمن بن گئے اور آپس میں ایک دوسرے سے لڑنے، مارنے لگے۔ یوں دنیا میں ہتھیاروں کی تیاری اور اسکے استعمال کرنے کے طریقے ایجاد ہونے لگے اور انسان وحشی بنتا چلا گیا۔

ایرک فرام کو ایک انسان دوست ماہر نفسیات کے طور پر جانا جاتا ہے۔ وہ ایک روایتی یہودی خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور جرمنی میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ اس بات کی کوئی بھی تاریخی شہادت نہیں ملتی کہ ہمارے قدیم آباؤ اجداد بنیادی طور پر جنگجو اور وحشی تھے۔ ایرک فرام نے حوالوں سے یہ ثابت کیا کہ "قدیم انسان قطعی جنگ پسند نہیں تھا، مگر جیسے جیسے وہ مہذب ہوتا گیا، وہ وحشی اور جنگجو ہوتا چلا گیا۔

رچرڈ لیکی انسانی معاشرے سے متعلق علم کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے انسانی معاشرے کے ارتقائی معاملات پر خاصا کام کیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں متعدد مقالات لکھے ہیں، جنہیں بین الاقوامی پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ ان کا خیال بھی یہی ہے کہ "قدیم ترین انسان امن و سکون کا داعی تھا، مگر جب ٹولوں کی شکل میں رہنے لگا تو اس کے من میں وحشت کا عنصر جاگا اور وہ ایک دوسرے کا دشمن بن گیا۔”

سیگمنڈ فرائیڈ کہتا ہے کہ "نا انسان تہذیب کیلئے وجود میں آیا ہے اور نہ ہی تہذیب انسان کو راس آئی ہے۔” تہذیب والی زندگی نے انسان کو ہر مرحلے میں ایذا اور مشکلات میں مبتلا کیا ہے، اسلئے انسان اعصاب زدگی کا شکار ہو گیا اور اپنی تباہی کا سامان پیدا کرنے لگا۔ اس طرح انسان نے تیر کمان، تلوار، خنجر اور کئی طرح کے ہتھیار ایجاد کئے، پھر ان سے بچاؤ کی خاطر اس نے زمین کو بانٹ لیا اور اپنے اپنے علاقوں میں خود کو محفوظ رکھنے کیلئے قلعے بنائے، پھر ان قلعوں کی فصیلوں کو چوڑا بنایا، باہر کی جانب کھائیاں بنا کر اس میں پانی بھر دیا، فصیلوں کو اتنا چوڑا بنایا کہ اس پر بیٹھ کر انسان دوسروں کی زندگیوں سے کھیل سکے۔

انسان مزید تہذیب یافتہ ہوا تو اس نے بندوقیں اور توپیں ایجاد کر لیں اور بربریت کے وہ مظاہرے کیے کہ دور بیٹھے انسانوں کو ختم کرنے لگا۔ جیسے جیسے تہذیب بڑھتی گئی، اس کے اندر کا جنونی انسان بے قابو ہوتا چلا گیا۔ انسان ترقی کی سیڑھیوں سے دیگر انسانوں کو دھکیلتا ہوا آگے بڑھنے لگا۔ اب اس نے ہوائی جہاز بنا لئے اور ان جہازوں پر ایٹم بم رکھ کر ہزاروں میل دور بیٹھے انسانوں کی جانوں کو نیست و نابود کرنے لگا۔ تہذیب کی اس ترقی نے جہاں کئی انسانی فلاح کے کام انجام دیے، وہیں انسان فطری وحشت کے تقاضوں کے مطابق اب ڈرون تک آ پہنچا، جس میں حلمہ آور کوئی انسان نہیں ہوتا، بلکہ نشانہ انسان ضرور ہوتا ہے۔

اب تو ترقی کے وہ سارے مراحل طے ہو گئے ہیں جہاں انسان اپنے گھر کی چار دیواری میں بھی محفوظ نہیں، کب کوئی چھوٹا سا ترقی کا کوئی چھوٹا سا آلہ اس کی ذاتی زندگی کو سر بازار ننگا کر دے، کب وہ آلہ آپ کی ایک ایک حرکت کو ریکارڈ کرے، کسی کو معلوم نہیں ہوتا۔ ہم تہذیب یافتہ کہلاتے ہیں مگر تہذیب نام کی کوئی شئے ہمارے بیچ نہیں۔ پہلے ہم ننگے بدن کو چادر سے ڈھانپتے تھے، لیکن اب ہم چادر کھینچتے ہیں۔ پہلے ہم آس پاس بھوکوں کو ڈھونڈتے تھے اب بھوکے ہمیں ڈھونڈتے ہیں۔ پہلے ہم پڑوس کی خبر رکھتے تھے اب ہم ایک دوسرے سے بے خبر ہیں۔ آئیں سوچیں ہم نے تہذیب سے کیا سیکھا؟ تہذیب نے ہمیں کیا دیا؟ ترقی سے ہمیں کیا حاصل ہوا؟

انسانی تاریخ یہ بتاتی تھی کہ ماں باپ پڑ پوتوں تک ایک ساتھ زندگی گزارتے تھے اور اب یہ عالم ہے کہ دو بھائی ایک چھت تلے نہیں رہ سکتے۔ انسان آج بھی انسان ہی کہلاتا ہے، مگر اس میں ایک ہابیل ہے اور دوسرا قابیل ہے، ایک مقتول ہے اور ایک قاتل ہے۔ اس ترقی کے دور نے ہمیں کیا سے کیا بنا دیا، آج ہر انسان تنہا ہے، گو کہ بھیڑ میں رہتا ہے، لیکن انسان انسان سے ڈرتا ہے اور جانور اور پرندے بھی ہم سے دور رہنے پر مجبور ہیں۔ قدیم دور کی آفات الٰہی سے بھی اتنے انسان جان سے نہیں گئے ہونگے جتنے اس تہذیب یافتہ ترقی نے نگل لیے۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔