گم ہوتا کراچی: گرانڈ ہوٹل (مینوالا ہوٹل) ملیر
کراچی کو قیام پاکستان کے بعد انتہائی اہمیت حاصل تھی۔ دراصل کراچی وہ واحد شہر تھا، جہاں کی مقامی آبادی میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندو، عیسائی، پارسی یہاں تک کہ یہودی کمیونٹی بھی آباد تھی۔ قیام پاکستان سے قبل کراچی کی ترقی میں برطانوی حکومت کے علاوہ پارسی کمیونٹی نے انتہائی اہم کردار ادا کیا۔
موجودہ صدی میں کراچی شہر کی خوبصورتی میں اپنا کردار ادا کرنے والی بے مثال عمارات بہت اہم ہیں۔ یہ عمارات زیادہ تر برطانوی راج میں انگریزوں، مقامی ہندوؤں اور پارسیوں نے تعمیر کی تھیں۔ ان خوبصورت عمارات کے ساتھ ساتھ کراچی کی رنگینی کو بڑھانے میں یہاں کے سینماؤں اور ہوٹلوں نے بھی بڑا کردار ادا کیا ہے۔کراچی کی بہترین ہوٹلوں کے قیام میں پارسی کمیونٹی آگے رہی ہے۔ شہر میں ہوٹلوں کے قیام کے حوالے سے مینوالا خاندان اہمیت کا حامل ہے۔ اسی خاندان سے تعلق رکھنے والے سائرس مینوالا نے قیام پاکستان کے فوری بعد یہاں ہوتل میٹروپول قائم کیا تھا، جو اپنا وجود کھونے کے باوجود آج بھی کراچی کی پہچان ہے۔
کراچی کی ترقی کا سفر قیام پاکستان سے قبل ہی برطانوی دور میں شروع ہوچکا تھا اور انگریز، ہندو اور پارسی تاجر اس شہر کو خوب سے خوب تر بنانے میں ہمہ وقت کوشاں تھے۔ ابھی کراچی کی ترقی کا سفر جاری تھا کہ دنیا نے ایک بری آفت کا سامنا کیا، یعنی جنگ عظیم دوم۔ اس عالمی جنگ کے دوران ڈرگ روڈ ایئر اسٹرپ، جسے آج کے لوگ کراچی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے نام سے جانتے ہیں، یہاں پہنچنے والے امریکی جہازوں کا مرکز بنا۔ بدقسمتی سے اس وقت یہاں پہنچنے والے امریکی فوجیوں اور دیگر غیرملکیوں کے ٹھہرنے کے لیے ایئرپورٹ سے قریب اسٹار گیٹ پر واقع ایک ہوٹل کے سوا کوئی دیگر ہوٹل موجود نہ تھا۔ دیگر ہوٹل شہر کے مرکز میں واقع تھے۔ واضح رہے کہ اس وقت کراچی شہر کا مرکز صرف اس حدود پر مشتمل تھا، جسے موجودہ وقت میں ضلع جنوبی کا نام دیا گیا ہے۔ اس کمی کو سائرس مینوالا نے محسوس کیا اور کراچی ایئرپورٹ کے قریب ایک ہوتل کے قیام کا فیصلہ کیا۔
اس مقصد کے لیے سائرس مینوالا نے اپنے قریبی رفقا سے صلاح مشورے کیے اور اس کے بعد ایئرپورٹ سے قریب واقع علاقے ملیر میں (جو اس وقت بہت پرفضا مقام تھا) ایک پرانا فارم ہاؤس خرید لیا۔ منصوبے کے مطابق خریدے گئے فارم ہاؤس پر ایک خوبصورت عمارت قائم کی گئی اور ضروری سازو سامان اور تزئین و آرائش کے بعد اسے خوبصورت ہوٹل میں تبدیل کردیا گیا۔ اس ہوٹل کو "گرانڈ ہوٹل” کا نام دیا گیا۔ گرانڈ ہوٹل کو مینوالا ہوٹل کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔
یہ ہوٹل کوریائی جنگ کے دوران امریکی مسلح افواج کو رہائش اور تفریح فراہم کرنے کے لئے مقصد سے تیار کیا گیا تھا۔ جنگِ عظیم دوم اور کوریائی جنگ ختم ہونے اور غیرملکی فوجیوں کی آمد ختم ہونے کے بعد غیرملکی ایئرلائنز کی نظریں اس ہوٹل کی طرف پر پڑیں اور ان ایئرلائنز نے اپنے عملے کے قیام کے لیے اس ہوٹل کا انتخاب کیا اور یوں یہ ہوٹل غیرملکی ہوائی کمپنیوں کے کریو کا میزبان بن گیا۔ اگرچہ ہوٹل کی زمین سائرس مینوالا نے خریدی تھی اور اس ہوتل کی تعمیر کے اخراجات بھی سائرس مینوالا ہی کی جیب سے ادا ہوئے تھے، لیکن انہوں نے اس ہوٹل کی ملکیت اپنی بیٹی ایمی مینوالا کے نام کردی۔ ایمی مینوالا ماضی میں پاکستان فلمی صنعت کی معروف ترین رقاصہ تھیں۔ ایمی مینوالا سے متلق تفصیل آپ ہوتل کی تفصیلات کے بعد ملاحظہ کرسکیں گے۔
گرانڈ ہوٹل ملیر کے ایک ایسے مقام پر قائم تھا، جہاں ہریالی ہی ہریالی تھی اور پورے علاقے میں ناریل، کھجور، امرود اور آم کے باغات تھے۔ ان باغات میں سب سے زیادہ درخت ناریل کے تھے۔ باغات کے ساتھ ساتھ یہاں مقامی افراد کھیتی باڑی بھی کیا کرتے تھے اور ان مقامی افراد کی محنت اور قریب سے گزرتی ملیر ندی کے پانی کی محنت سے یہ علاقہ انتہائی سرسبز و شاداب تھا اور مقامی افراد ان زمینوں پر کھیتی باری کرکے بڑی مقدار میں سبزیاں بھی پیدا کرتے تھے۔ ملیر کے امرود اور ہری مرچ آج بھی اپنی ایک خاص پہچان رکھتے ہیں۔ ملیر کی بھنڈی، ٹماٹر، ہری مرچ، امرود، ناریل اور آم شہر بھر میں اپنی مثال آپ تھے۔
ان ہرے بھرے کھیتوں اور باغات کے درمیان کسی پرتعیش ہوٹل کا ہونا انتہائی باکمل تجربہ تھا ۔ ہوٹل میں ایک خوبصورت سوئمنگ پول قائم کیا گیا۔ اولمپک سائز کا یہ جدید سوئمنگ پول بہت جلد عوامی توجہ کا مرکز بن گیا۔ابتدا میں کسی عام شہری کو ہوٹل میں داخلے کی اجازت نہیں تھی ۔ہوٹل کے اندر ہونے کے باعث یہ سوئمنگ پول عوامی پہنچ سے دور تھا۔ اس کمی کو ہوٹل سے متصل ایک بنگلے میں ایک کوئٹہ وال نے چائے کا ہوٹل قائم کیا اور ساتھ ہی سوئمنگ پول کی طرز پر ایک بڑا واٹر ٹینک بنوایا اور اس میں پانی بھردیا۔ ساتھ ہی اپنے ہوٹل کو ٹینک ہوتل کا نام دے دیا۔ اب ہوا یہ کہ غیرممالک سے کراچی پہنچنے والے افراد اور شہر میں رہنے والے صاحبانِ زر گرانڈ ہوتل کے سوئمنگ پول سے لطف اندوز ہوتے اور استطاعت نہ رکھنے والے افراد گرانڈ ہوتل سے متصل کوئٹہ ٹینک ہوٹل کے ٹینک میں پیراکی کرکے سوئمنگ پول کا مزہ لیتے۔ اس ٹینک ہوٹل کے سوئمنگ پول پر کام کے دنوں میں بھی لوگ آتے تھے، لیکن اتوار کے روز تو اس پول میں اترنے کے لیے دیر سے آنے والوں کو انتظار کی سولی پر گھنٹوں لٹکے رہنا پڑتا تھا۔ اس زمانے میں دن بھر سوئمنگ کا کرایہ ایک روپے ہوا کرتا تھا، جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا رہا اور ایک روپے گھنٹے سے ہوتا ہوا بیس روپے فی گھنٹہ تک پہنچ چکا ہے۔ بعد میں اسی طرز کا ایک سوئمنگ پول ملیر سے صدر کی جانب جاتے ہوئے وائرلیس گیٹ کے مقام پر بھی قائم کیا گیا تھا۔ یہ دونوں سوئمنگ پول 1980ء کی دہائی تک فعال رہے۔ اسی طرز کا ایک اور سوئمنگ پول گرانڈ ہوتل سے معمولی فاصلے پر جمعہ گوٹھ سے متصل قائم کیا گیا تھا۔ یہ سوئمنگ پول اب بھی فعال ہے۔ ٹائیگر سوئمنگ پول کے ساتھ اب نارمل انداز کا جم بھی قائم کردیا گیا ہے۔ یہ بات آج کے نوجوانوں کے لیے دلچسپی کا باعث ہوگی کہ آج سے تین دہائی قبل جم کو عام زبان میں ہیلتھ کلب کہا جاتا تھا، جہاں علاقے کے نوجوان تن سازی کیا کرتے تھے۔
1960 کی دہائی گرانڈ ہوٹل کے لیے کچھ اچھی نہیں رہی اور اس دہائی کے دوران اس ہوٹل کی رونقیں ماند پڑنے لگیں۔ کچھ عرصے بعد غیرملکی مہمان گرانڈ ہوٹل سے دور ہوتے گئے اور یوں یہ ہوٹل ایک سنسان عمارت میں تبدیل ہوگیا۔ اب اس کا صرف سوئیمنگ پول آپریشنل رہ گیاتھا۔ غیرملکی فوجیوں اور غیرملکی فضائی کمپنیوں کے عملے کی عدم آمد کے باعث عام شہریوں کو گرانڈ ہوٹل کے پول میں نہانے کا موقعہ ملنے لگا۔ 1970ء کی دہائی میں ہوٹل کے سوئمنگ پول میں پیراکی کے لئے 10 روپے وصول کیے جاتے تھے۔
وقت تیزی سے کروٹ بدل رہا تھا اور ہوٹل کے مالکان اس ہوٹل کے بند ہونے کے بعد اسے فروخت کرنے کا سوچنے لگے۔ اس سوچ بچار میں دو برس بیت گئے اور 1972 میں گرانڈ ہوٹل کی عمارت کو فروخت کر دیا گیا۔ گرانڈ ہوٹل کی عمارت کو اس کے نئے مالکان نے منہدم کردیا اور یوں چار دہائیوں تک کراچی کی پہچان رہنے والے اس زندہ ہوٹل نے دم توڑ دیا۔ عمارت کو مسمار کیے جانے کے بعد کچھ برسوں تک اس کا ملبہ اسی جگہ پڑا رہا۔ اپنے انہدام سے قبل نیشنل ہائی وے سے سر گزرتے ہوئے سفید رنگ کی یہ عمارت واضح نظر آیا کرتی تھی۔ سرسبز کھیتوں اور باغات میں گھری سفید عمارت بڑا ساحرانہ منظر پیش کرتی تھی۔ ریلوے ٹریک بلند ہونے کے باعث ٹرین سے گزرتے ہوئے یہ منظر زیادہ خوبصورت اور واضح نظر آتا تھا۔ یہ لگ بھگ وہی زمانہ تھا جب میں جامعہ ملیہ پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ سے میکینکل ڈرافٹس میں کا تین سالہ ڈپلومہ کررہا تھا اور اس وقت ہماری رہائش قائدآباد میں ہوا کرتی تھی۔ قائدآباد سے کے ٹی سی یعنی کراچی ٹراسپورٹ کارپوریشن کی بس میں بیٹھ کر ہم ملیر پندرہ کے اسٹاپ پر اترتے یا لانڈھی اسٹیشن سے اس وقت چلنے والی کراچی سرکلر ٹرین پر بیٹھ کر ملیر ریلوے اسٹیشن اترتے اور وہاں سے کھجوروں کے باغات کے درمیان سے گزرتے ہوئے انسٹی ٹیوٹ پہنچ جاتے۔
جس جگہ سے ہم انسٹی ٹیوٹ کے لیے مڑتے عین اسی جگہ یہ ہوٹل قائم تھا۔ اس وقت اس ہوٹل سے متعلق بہت سی پراسرار کہانیاں بھی مشہور ہونے لگی تھیں۔ مغرب کے بعد جب کلاسیں ختم ہوتیں تو ہم طلبہ گروپس کی شکل میں نکلتے کیوں کہ اس وقت تک یہاں سے نہ صرف کھیت ختم ہوچکے تھے، بلکہ ان کھیتوں کی جگہ کیکر کی جھاڑیوں نے لے لی تھی، جن میں س اکثر سانپ بھی نکل آیا کرتے تھے۔ اپنے زمانے میں آباد رہنے والے سوئمنگ پول میں لاشیں ملنے کا سلسلہ شروع ہوا تو اس طرف سے لوگوں نے گزرنا بھی چھوڑ دیا۔ اس جگہ پر اب رہائشی سوسائٹی قائم ہے۔ برلبِ سڑک چار منزلہ فلیٹ ہیں جنہیں انعم ہائٹس کہا جاتا ہے اور اس کے پیچھے اور تھوڑا آگے چل کر سڑک کے ساتھ ساتھ مکانات کا سلسلہ ہے، جسے انعم ہومز کا نام دیا گیا ہے۔یہ علاقہ اب مکمل طور پر آباد ہے۔
ایمی مینوالا
ایمی مینوالا کا تعلق پارسی خاندان سے ہے اور وہ معروف تاجر سائرس مینوالا کی صاحبزادی ہیں۔ ایمی مینوالا کراچی میں پیدا ہوئیں اور تعلیم بھی یہیں سے حاصل کی۔ انہوں نے بچپن ہی سے رقص کی تعلیم حاصل کرنا شروع کردی تھی۔ ان کے اساتذہ میں معروف رقص ماسٹر غلام حسین، مہاراج کتھک اور عاشق حسین سمراٹ شامل ہیں۔ انہوں نے 1960ء کی دہائی میں اپنے خوبصورت رقص کے باعث فلم بینوں کے دلوں پر راج کیا۔ یہ بات 1955 کی ہے کہ وہ زیر تعلیم ہی تھیں کہ انہیں فلم سوہنی میں رقص کرنے کا موقع ملا۔ ان کا خاص میدان کلاسیکل رقص تھا، لیکن انہوں نے متعدد فلموں میں اداکاری کے جوہر بھی دکھائے۔ انہوں نے مختلف فلموں میں جس طرح اپنے کردار نبھائے اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ ان کی یادگار فلموں میں قتل کے بعد، جھلک، سیما، ہزار سال بعد، باجی اور تقدید قابلِ ذکر ہیں۔
اپنے فلمی کیریئر کے دوران ایمی منوالا نے اسلام قبول کرلیا تھا اور اپنے وقت کے بڑے ہدایت کار حسن طارق سے شادی کرلی تھی۔ اپنے لاہور قیام کے دوران ایمی مینوالا نے کئی برس تک نئے لڑکے لڑکیوں کو کلاسک کتھک رقص کی تعلیم بھی دی۔ انہیں 2000ء کی دہائی میں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے بھی نوازا گیا۔ معروف فلم آرکائیور گڈو کو ماضی میں دیے گئے ایک انٹرویو میں ایمی منوالا نے بتایا تھا کہ انہیں کلاسیکل کے علاوہ ٹویسٹ اور راک اینڈ رول جیسے مغربی رقص بھی آتے ہیں، لیکن انہیں پسند نہیں۔ انہیں صرف کلاسیکل رقص پسند ہے۔ ایمی مینوالا نے اپنے فلمی کیریئر کے دوران ہدایت کار حسن طارق سے شادی کی اور ان کی موت تک ان کا ساتھ نبھایا۔ جس طرح انہوں نے حسن طارق کی بیماری کے دوران ان کی خدمت کی، وہ ان کی زندگی کا روشن باب ہے۔