گم ہوتا کراچی
فرئیر ہال، کراچی کا خوبصورت چہرہ
دنیا کا ہر شہر اپنی ایک الگ پہچان رکھتا ہے۔ ان شہروں کی پہچان میں وہاں کی عمارتوں یا کسی منفرد عمارتی ڈھانچوں کا بڑا عمل دخل ہے۔ دریائے ٹیمر پر بنا پل بتاتا ہے کہ تصویر لندن کی ہے۔ اسی طرح اگر کسی غیرملکی کو مزارِ قائد یا فریئر ہال کی تصاویر دکھائی جائیں تو وہ فواً سمجھ جاتا ہے کہ یہ کراچی ہے۔
فرئیر ہال کو یادگار لینڈ مارک کہا جاتا ہے۔ اس عمارت کی تعمیر 1860ء میں شروع ہوئی اور 1865ء میں اسے مکمل کیا گیا۔ بعض کتابوں کے مطابق اس کی تعمیر کے لیے زمین سیٹھ دھول جی دنشا نے عطیہ کے طور پر دی، جبکہ بعض مورخین کا خیال ہے کہ اس کی تعمیر کے لیے زمین 2 ہزار برٹش انڈین روپے میں خریدی گئی۔ یہ رقم ڈبلیو پی اینڈریواور سر فیڈرک آرتھر نے عطیے کے طور پر دی تھی۔ اس عمارت کو سندھ کے سابق انگریز کمشنروں سر چارلس پرچرڈ اورپیر ایوان جیمزکا پینٹ ہاؤس رہنے کا شرف بھی حاصل ہے۔
اس کی تعمیر کا سہرا سندھ کے سابق برطانوی کمشنر سر ہنری برٹیل ایڈورڈ فرئیر کے سر ہے۔ سر ہنری برٹیل ایڈورڈ فریئر 1815 میں پیدا ہوئے اور ان کا انتقال 1884ء کو ہوا۔ ایڈورد اس عمارت کو شہر کا بڑا مالیاتی اور معاشی مرکز بنانا چاہتے تھے۔ ان کے انتقال کے بعد ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر اس عمارت کا نام ان سے منسوب کرکے فریئر ہال کردیا گیا۔ قدیم ونسیٹ گاتھک اور سرکونک اسٹائل کی بنی اس عمارت کی طرر پر ممبئی میں بھی کئی عمارتیں تعمیر کی گیئں۔ اپنی تعمیر کے ابتدائی زمانے میں اسے ٹاؤن ہال کے طور پر استعمال کیا گیا۔ قیام پاکستان کے بعد اسے میوزیم میں تبدیل کردیا گیا۔ یہ عمارت برطانیہ کے نوآبادیاتی دور کی یاد دلاتی ہے۔ یہ صرف ایک یادگار عمارت ہی نہیں بلکہ ایک عوامی تفریح گاہ بھی ہے۔ انگریزوں کے زمانے میں اس عمارت کے ساتھ کوئین لان اور کنگ لان کے نام سے دو سبزہ زارتھے۔ قیام پاکستان کے بعد دن دونوں پارکوں کو ایک کر کے اسے جناح گارڈن کا نام دے دیا گیا ہے۔
فریئر ہال کی ڈیزائننگ کے لیے مختلف ماہرین تعمیرات نے بارہ نقشے تیار کیے، جن میں سے موجودہ عمارت کا نقشہ منتخب کیا گیا۔ یہ نقشہ ہینری سینٹ کلیئر ولکنس نے تیار کیا تھا۔ اس کی تعمیر پر اس وقت ایک لاکھ 80 ہزار روپے لاگت آئی، ان میں سے 10 ہزار روپے حکومت نے ادا کیے اور بقیہ رقم بلدیہ کراچی کے خزانے سے ادا کیے گئے۔ اس عمارت کی اونچائی 144 فٹ ہے۔ اس کی تعمیر میں زرد پتھر سمیت بھورے اور سرخ رنگ کا پتھر استعمال کیا گیا ہے۔ ان پتھروں پر رنگ کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ان پر پانی ڈالا جائے تو یہ پتھر بالکل نئے نظر آنے لگتے ہیں۔
عمارت کے مرکزی دروازے سے اندر داخل ہونے پر عمارت کے ساتھ ہی کتھئی رنگ کا ایک خوبصورت مینار تعمیر کیا گیا ہے، جس کی اونچائی تقریباً 7 فٹ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ مینار بلوچ انفنٹری سے تعلق رکھنے والے ان جاںبازوں کی یاد میں بنایا گیا ہے جنہوں نے پہلی جنگ عظیم میں انگریز سرکار کی سلامتی کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد اس عمارت کو قومی ورثہ قرار دیا گیا اور اس عمارت کے گراؤنڈ فلور پر ایک لائبریری قائم کی گئی۔ اس لائبریری کو ملک کے پہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کی خدمات کے اعتراف میں ان کےنام سے موسوم کیا گیا۔ اس لائبریری میں70 ہزار سے زائد علوم اور فنون کی کثیر تعداد میں کتابیں موجود تھیں، جن میں قدیم و تاریخی خطوط اور دیگر مخطوطات بھی شامل تھے۔
عمارت کی بالائی منزل میں ایک آرٹ گیلری قائم کی گئی، جسے بین الاقوامی شہرت یافتہ مصور صادقین کے نام سے منسوب کردیا گیا۔ اس آرٹ گیلری کی خاص بات اس کی چھت ہے، جس پر صادقین نے بڑی مہارت سے اپنے فن پاروں سے مزین کیا ہے۔ صادقین نے اس چھت پر مصوری کا آغاز 1986ء میں کیا تھا۔ یہ چھت 44 فٹ بلند ہے اور اس پر صادقین نے سورۃ الرحمٰن کی آیات کی خطاطی کی ہے۔ اس آرٹ گیلری کو 1990ء میں صادقین کے نام سے منسوب کردیا گیا۔ دن ہفتوں میں، ہفتے مہینوں میں اور مہینے برسوں میں تبدیل ہوتے رہے اور یہ عمارت یہاں آنے والوں کو اپنی خوبصورتی سے لوگوں کی توجہ حاصل کرتی رہی۔ چوبیس اکتوبر 2009 کو سابق کے ای ایس سی اور ہیری ٹیج فاونڈیشن کے درمیان ایک مفاہمتی یادداشت پر دست خط کیے گئے۔ اس کا مقصد شہر کی بڑی اور تاریخی عمارات کی بحالی تھا۔ اس معاہدے میں جن عمارات کی بحالی اور تحفیظ کی بات کی گئی تھی، ان میں ڈینسو ہال اور فریئر ہال بھی شامل تھے۔
اسی نوعیت کی کوششیں گزشتہ دہائی میں بھی کی گئیں۔ دو ہزار تیرہ میں فریئر ہال کو اس کے ماضی کی شان و شوکت لوٹانے کے لیے اس کے باغ کی بحالی کا کام شروع کیا گیا۔ اس کا آغاز تیرہ اپریل کو کیا گیا۔ اس وقت اس عمارت کو ایک انتظامی کمیٹی کے سپرد کیا جاچکا تھا، جسے گارجین بورڈ کا نام دیا گیا تھا۔ بورڈ میں میئر کراچی، میٹروپولیٹن کمشنر، متعلقہ محکموں کے افسران، معروف صحافی، صنعت کار، ماہرین تعمیر، انجینئرز اور شہر کے معزز افراد شامل تھے۔ اس بورڈ کے قیام کی منظوری کے ایم سی کونسل سے حاصل کی گئی تھی۔ بحالی کے کام کے آغاز پر ایک تقریب منعقد کی گئی۔ اس موقع پر گارجین کمیٹی کا کہنا تھا کہ فریئر ہال کو پہلی مرتبہ کراچی کے عوام نے اون کیا ہے۔ اس عمارت کی بحالی پر کے ایم سی کے وسائل خرچ نہیں ہوں گے بلکہ یہ بورڈ اس پر خرچ ہونے والے وسائل کا انتظام کرے گا۔ 2013 میں ایک بار پھر ۔فریئر ہال کی تزئین و آرائش کی گئی اور صادقین کے فن پاروں کو محفوظ کیا گیا۔
کچھ عرصے بعد اس عمارت سے ملحق پارک میں پرانی کتابوں کے اتوار بازار کا آغاز کیا گیا۔ اس سے قبل کتابوں کا ایک اتوار بازار ریگل چوک پر بھی لگا کرتا تھا، جو آج بھی لگتا ہے۔ ریگل چوک سے کتابیں خریدنے والے اب فریئر ہال بھی پہنچنے لگے۔ کئی برس یہ بازار پابندی سے لگتا رہا، پھر اس کی رونقیں ماند پڑنے لگیں اور یہ بازار بند کردیا گیا۔ اب ایک بار پھر یہاں کتابوں کے اتوار بازار کا سلسلہ بحال کردیا گیا ہے۔
سوشل میڈیا پر ویڈیوز اپ لوڈ کیے جانے کے ٹرینڈ کے ساتھ ہی یہں ویڈیو بنانے والوں کی آمد بھی شروع ہوگئی تھی۔ اب ہر اتور اور عام تعطیل کے موقع پر یہاں ٹک ٹاکرز کا رش ہوتا ہے جو عام افراد سے بے خبر اپنی دھن میں ہوتے ہیں اور ہر چیز سے بے نیاز ہوکر اپنی ویڈیوز ریکارڈ کرا رہے ہوتے ہیں۔ چھٹی کے روز صبح شروع ہونے والا یہ سلسلہ غروب آفتاب تک جاری رہتا ہے۔