گم ہوتا کراچی: کوٹھاری پریڈ کلفٹن

ماضی کے جھروکوں سے جھانکتے خوبصورت مناظر کی داستان، جن کی دل کشی آج بھی فسوں کار ہے

زاہد حسین

پاکستان دنیا کے ان خوش قسمت ممالک میں شامل ہے جہاں پہاڑ، دریا، سمندر، میدان اور ریگستان سمیت دنیا کی ہر نعمت موجود ہے۔ پاکستان کی ساحلی پٹی بلوچستان سے کراچی تک پھیلی ہوئی ہے۔ کراچی کی بندرگاہ کو چھوتا ہوا ساحل کلفٹن پر پہنچ کر خاصا پرکشش  ہوجاتا ہے اور لوگ تفریح کی غرض سے یہاں جوق در جوق آتے ہیں۔ اس ساحل سے کوئی چند فرلانگ کے فاصلے پر ایک بڑا چبوترا اور اس پر بنا خوبصورت گنبد یہاں آنے والوں کی توجہ فوراً حاسل کرلیتا ہے۔ اس مقام کو کوٹھاری پریڈ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

کراچی کے اس عظیم تاریخی ورثے کی تعمیر کو رواں برس کی پہلی سہ ماہی کے وسطِ اخریٰ میں ایک سو سال مکمل ہوچکے ہیں اور اب یہ اپنی دوسری صدی کا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس کی تعمیر کا آغاز دس فروری 1919ء کو ہوا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب کراچی بمبئی کا حصہ ہوا کرتا تھ۔ا اور اس وقت یہاں کے گورنر جارج لائیڈ تھے۔ انہی کے ہاتھوں سمندر کے کنارے یہ پریڈ ایک تفریح گاہ کے طور پر تعمیر ہونا شروع ہوا تھا۔ اس کی تعمیر دو برس ایک ماہ سے زائد وقت تک جاری رہی اور بالآخر اکیس مارچ 1921 کو کوٹھاڑی پریڈ مکمل تیار ہوگیا۔ اس کی تکمیل کے بعد گورنر جارج لائیڈ کی اہلیہ لیڈی لائیڈ نے اس کا افتتاح کیا اور عمارت کو عام افراد کے لیے کھول دیا گیا۔

جہانگیر کوٹھاڑی کے آس پاس کا نم ماحول اور سمندری پانی کی مخصوص خوشبو بتا دیتی ہے کہ ساحل یہیں کہیں قریب ہی ہے۔ تھوڑا آگے بڑھیں تو یک دم سامنے سمندر نظر آجاتا ہے۔ ساحل تک پہنچنے کے لیے کوٹھاری پریڈ کی خوب صورت اور تاریخی عمارت کے پاس سے گزر کر تھوڑا نیچے اترنا پڑتا ہے۔ یہ کوٹھاری پریڈ کی عمارت بھی بڑی دلچسپ ہے۔ بڑا گنبد جسے ہوا بنر کہتے ہیں۔ اس کے نیچے اس کے چبوترے تک پہنچنے کے لیے ایک طرف بنی ہوئی سیڑھیاں چڑھنا پڑتی ہیں۔ چبوترے کے باقی حصے کے اطراف میں ڈھلوانی پتھروں کی ٹائلیں لگائی گئی ہیں، جو نیچے سڑک تک آتی ہیں۔ اسی عمارت کے دوسری طرف سے چوڑی پتھریلی سیڑھیاں نیچے ایک وسیع و عریض راہداری پر اترتی ہیں، جو آہستہ آہستہ آگے چلتی جاتی ہیں۔ کچھ دور چلیں تو کچھ فاصلے کے بعد ایک بار پھرچند سیڑھیاں ہیں، کچھ اور نیچے اترنے کے بعد پھر راہداری کا اگلا حصہ شروع ہو جاتا ہے۔ یہ راہداری بہت خوبصورت تھی۔ کسی وقت ان سیڑھیوں اور گزر گاہ کے دونوں اطراف پتھارے موجود تھے، اور ان پتھاروں میں سمندری سیپیوں سے بنے زیورات اور سجاوٹ کی دیگر اشیاء ملا کرتی تھیں۔ یہ چیزیں مختلف شہروں سے آنے والے لوگ خاص طور پر خرید کر لے جاتے تھے۔ اب ان پتھاروں کا ختم کردیا گیا ہے۔ اس راہداری کے دونوں طرف دلکش باغات اور گھاس کے تختے ہیں۔ آہستہ آہستہ نیچے اترتی یہ راہ گزر آنے والوں کو سمندر کے قریب پہنچا دیا کرتی ہے۔

جہانگیر کوٹھاری پریڈ برطانوی عہد کی ایک شاندار یادگارہے، جدید دور میں اس کے اردگر د اوورپاس اور کثیرالمنزلہ عمارتوں نے اس کی خوبصورتی کو ڈھانپ دیا ہے، یوں یہ تاریخی یادگار نئی تعمیرات، بل کھاتے پلوں اور زیرِ زمین راستوں کے جھرمٹ میں کہیں گم ہوکر رہ گئی ہے۔

اس کی تعمیر کی اصل وجہ خاصی دلچسپ ہے۔ اس وقت سمندر کو جانے والی راہ پتھریلی تھی اور کہیں بھی ہموار راستہ نہیں تھا۔ پانی تک فاصلہ بھی بہت طویل تھا۔ ہر سہ پہر کو جب سمندر سے خنک ہوا کلفٹن کی ریت سے گذرتی، تو گورنر لائیڈ کی اہلیہ لیڈی لائیڈ وکٹوریہ میں سوار ہوکر اندھیرا پھیلنے سے پہلے پہلے یہاں کا ایک چکر لگاتی تھیں۔ ایک دن سیر کے دوران لیڈی لائیڈ کی ملاقات ایک پارسی رئیس سے ہوئی، جن کا نام سر جہانگیر ہرمز جی کوٹھاری تھا۔ ان دونوں میں جلد ہی گہری دوستی ہوگئی۔ کوٹھاری صاحب سمندر کے کنارے ایک چھوٹی سی پہاڑی پر تعمیر کردہ اپنے شان دار بنگلے میں رہتے تھے۔ لیڈی لائیڈ یہاں آتیں تو جہانگیر کوٹھاری کے ساتھ اس بنگلے کی بالکونیوں میں چائے پیا کرتیں۔ یہاں ہوا کا بہت زور ہوتا تھا۔ ایک دن دونوں یہیں بیٹھے تھے، لیڈی لائیڈ پتھریلے راستے پر لوگوں کو چلتے دیکھ رہی تھیں، یہ دیکھ کر انھوں نے جہانگیر کوٹھاری سے کہا کہ اگر یہاں سڑک بنا دی جائے تو ان بے چارے بے شمار لوگوں کو تکلیف نہ ہو، جو یہاں تازہ ہوا کی تلاش میں آتے ہیں۔ جہانگیر کوٹھاری نے لیڈی لائیڈ کی بات مان لی۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ اس منصوبے کو عملی جامہ کیسے پہنایا جائے۔ لیڈی لائیڈ نے سمجھایا کہ صرف ایک پریڈ کی ضرورت ہے جو نیچے ساحلِ تک جائے۔ یہ بہت بڑی بات ہوگی اور اُن کا نام ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہو جائے گا۔ ۔جہانگیر کوٹھاری کو یہ تجویز پسند آئی اور یوں انہوں نے تمام زمین اس وقت کی میونسپلٹی کو عطیہ کردی اور پھر یہاں پریڈ تعمیر ہوگیا۔ اس پریڈ کے ساتھ پویلین بھی تعمیر کروایا گیا۔ اس وقت اس کی تعمیر پر تین لاکھ روپے لاگت آئی۔ جہانگیر کوٹھاری نے اس کا نام اپنے نام کی بجائے اپنی دوست کے نام پر رکھا۔

سنگ بنیاد کے موقع پر جو تختی یہاں نصب کی گئی تھی، وہ آج بھی اسی طرح اپنی جگہ موجود ہے۔ اس قدیم تختی کے قریب ایک جدید تختی بھی نصب ہے۔ اس تختی پر آج کے دور کی تاریخ لکھی ہے۔

کوٹھاری پریڈ سے لیڈی لائیڈ کے گھاٹ کی جانب اتریں تو بائیں ہاتھ پر ایک مندر ہمارا استقبال کرتا ہے۔ یہ شری رتنیشور مہا دیو مندر ہے، جو زیرِ زمین تعمیر کیا گیا ہے۔ اس کی زیرِ زمین چھ منزلیں ہیں۔ کوٹھاری پریڈ سے گزرنے والی راہداری سے دو زینے ہمیں اس کی زیرِ زمین منزلوں کی طرف لے کر جاتے ہیں۔ اس کی زیرِ زمین چوتھی منزل پر ایک کھلا صحن ہے، جسے ماربل سے آراستہ کیا گیا ہے۔ پانچویں منزل کے بارے میں خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہ ایک سرنگ ہے، جو زیر زمین موہٹا پیلس پر پہنچ کر ختم ہوتی ہے۔

کراچی میں رہنے والے ہندو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ شوا کی تیسری آنکھ سمندر پر نظر رکھتی ہے اور سمندر کو طوفان جیسی بلاؤں سے محفوظ رکھتی ہے۔ ہندوؤں کا اس بات پر بھی یقین واثق ہے کہ بھگوان شوا اس مندر کی زیرِ زمین غار میں رہا کرتے تھے اور یہ خیال بھی ظاہر کیا جاتا ہے کہ بابا گرو نانک بھی اس غار میں مراقبہ کیا کرتے تھے۔

کوٹھاری پریڈ سے ساحل تک جانے کے لیے تیار کردہ قدیم پتھروں کی خوبصورت راہداری اور درمیان قاٹم گھاٹ، جسے لیڈی لائیڈ کے نام سے موسوم کیا گیا تھا، اس کے ساتھ ساتھ چلنے والے باغوں کے طویل سلسلے کی 2007ء میں نئے سرے سے تزئین و آرائش کرکے ایک بڑے باغ کی شکل دے دی گئی تھی اور اسے باغ ابنِ قاسم کا نام دیا گیا تھا۔ یہ پورا باغ اور یہاں قائم پریڈ شام ڈھلے بہت خوبصورت منظر پیش کرتا ہے اور اس کا گنبد اور ستونوں کے ساتھ بنی ڈھلوانیں چاندنی راتوں میں بہت حسین نظر آتی ہیں۔ چاندنی راتوں میں یہاں کا منطر دیکھنے کے لائق ہوتا ہے اور یہاں آنے والوں کو اپنے حسن میں جکڑ لیتا ہے۔

کوٹھاری پریڈ اور لیڈی لائیڈ گھاٹ شہریوں کے لیے کسی کمیونٹی سینٹر کی طرح ہے جہاں شہر کے فنکار آتے اور اپنے فن کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔ پریڈ کے گنبد کے نیچے اسکول کے بچوں کو اپنے پروجیکٹس پر کام کرتے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ یہاں خوبصورت تصاویر بنانے والے فوٹو گرافر اور مصور بھی آتے ہیں اور اپنے پسندیدہ منظر کے لیے سورج کے ڈھلنے، ابھرنے یا بھر دھوپ سے بنتے مطلوبہ سائے یا چاند کے کسی مخصوص مقام پر پہنچنے پر پریڈ کی تصاویر بنانے اور اپنے فن کی داد پاتے ہیں۔ خوبصورت اور طاقتور اسپورٹس کاروں کے شوقین افراد بھی یہاں اپنی گاڑیوں کی تصاویر اس طرح بنواتے نظر آتے ہیں کہ پس منظر میں کوٹھاری پریڈ نظر آرہا ہو۔ اور ہاں، یہاں آنے والے دانشوروں کا تذکرہ بھی ضروری ہے جو اس پرفضا اور پرسکون مقام پر بیٹھ کر زندگی کے گہرے رازوں کو کھوجتے ہیں۔ یہ سمجھیں کہ کوٹھاری پریڈ سو برسوں میں ایسا مقام بن چکا ہے جہاں کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد آتے اور اپنی زندگی کے لمحات کو خوشگوار اور یادگار بناتے ہیں۔

سمندر کے کنارے واقع ہونے کے باعث یہاں تازہ، تیزرفتار اور نمکین ہوا چلتی ہے۔ ٹھنڈی ہوا کے ساتھ کھلا اور وسیع سبزہ زار مس مقام کو انتہائی خوبصورت بناتا ہے۔ یہاں بیٹھ کر انسان بھول جاتا ہے کہ وہ کسی پرہجوم اور مصروف ترین شہر میں موجود ہے، جہاں ڈھائی کروڑ انسان بستے ہیں۔ یہ کوٹھاری پریڈ اسی کراچی شہر کا پرسکون حصہ ہے، جہاں ٹریفک جام رہتا ہے، جہاں گاڑیوں کے ہارن کانوں کو تکلیف دیتے ہیں، سڑکوں پر عوام کا اژدہام ذہین کو تھکا دیتا ہے اور جہاں کی کاروباری زندگی پرلطف زندگی کے رنگ پھیکے کردیتی ہے، لیکن یہاں پہنچ کر انسان ان تمام جھنجھٹوں سے خود کو محفوظ تصور کرتا ہے۔

آئیں اپنی زندگی کے کچھ لمحات کو یادگار بنائیں۔ اپنے دن کے آغاز سے قبل فرصت کا کچھ وقت کشید کیجیے اور اس پر فضا مقام پر آکر صرف ایک گھنٹہ گزاریے۔ اپنے آرام دہ جوتے ساتھ لائیے اور انہیں پہن کر کوٹھاری پریڈ سے ساحل تک پیدل چل کر نسیم سحر کو اپنے پھیپھڑوں کو بھر کا ایک نئے احاس سے لطف اندوز ہوں اور ساتھ ہی سمندر سے ابھرتے ہوئے سورج کا نظارہ کیجیے۔ ہو سکے تو اپنے موبائل کیمرا سے خوبصورت تصاویر بھی بنائیے۔ یہ تجربہ آپ شام کے وقت بھی کرسکتے ہیں اور باغ ابنِ قاسم کی کشاددہ سیڑھیوں سے سمندر کی طرف جاتے ہوئے آگ کے گولے (سورج) کو سمندر کے ٹھنڈے پانی میں اترتا بھی دیکھ سکتے ہیں۔ چاندنی رات میں سمندر کی لہروں کی اٹکھیلیاں اور چاند کا کوٹھاری پریڈ کے گنبد کے اوپر ٹِک جانے کا منظر آپ کی آنکھون میں ہمیشہ کے لیے جذب ہوسکتا ہے۔ ان خوبصورت لمحات کا لطف اٹھائیے اور اس طرح کے دیگر مقامات کی تلاش کیجیے جو آپ کے ارد گرد کہیں نہ کہیں موجود ہیں۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔