سکھرڈویزن میں 46 مقامات پرریلوے لائن کی حالت ابترہونے کا انکشاف

علی عابد سومرو

یوں تو پورے پاکستان کا ریلوے نظام بوسیدہ اور ناکارہ ہوچکا ہے لیکن سندھ میں صورتحال کچھ زیادہ ابتر نظر آرہی ہے ۔۔
ماضی میں ریلوے کے سفر کو نہایت ہی پرسکون ،آرام دہ اور محفوظ تصور کیا جاتا تھا جواب اس کے بلکل ہی الٹ ہے ۔
کراچی سے پنجاب اور پنجاب سے کراچی آنے اور جانے والی مسافر اور مال بردار ریل گاڑیوں میں تصادم اور پٹڑی سے اترجانے کے واقعات اب تو تواتر سے ہونے لگے ہیں جس سے مسافروں کا دن بدن ریلوے کے سفر سے دل بھرتا جارہا ہے ۔۔
آج بھی لاہور سے کراچی آنے والی مال بردار گاڑی کو جہانیاں کے قریب حادثے پیش آیا جس کے باعث خانیوال لودھراں سیکشن پر ریلوے ٹریفک معطل ہوگیا۔
ریلوے حکام کے مطابق زیڈ بی کے ایچ مال بردار گاڑی کی کئی بوگیاں قطب پور کے قریب پٹری سے اتری ہیں جس کی وجہ سے ریلوے ٹریک بھی متاثر ہوا ہے۔
اس سے پہلے آٹھ جون دوہزار اکیس کو سندھ کے ضلع گھوٹکی میں ڈہرکی کے قریب دو مسافر ٹرینوں کے تصادم کے نتیجے میں 51 افراد جاں بحق جبکہ 100 تک زخمی ہوئے تھے ، حادثے کے باعث متعدد مسافر ٹرینوں کی آمد و رفت تعطل کا شکار رہی تھی ۔۔
یہ ہولناک حادثہ اس وقت پیش آیا تھا جب سرگودھا جانے والی ملت ایکسپریس کی 10 سے زائد بوگیاں پٹڑی سے اتریں اور مخالف سمت سے آنے والی سرسید ایکسپریس ان بوگیوں سے ٹکرا گئی۔
حادثے میں مجموعی طور پر ٹرینوں کی 13 سے زائد بوگیوں کو نقصان پہنچا، جن میں ملت ایکسپریس کی 9 اور سرسید ایکسپریس کی 4 بوگیاں شامل ہیں۔
سندھ میں اسی علاقے میں اس سے پہلے بھی کئی خطرناک حادثات پیش آچکے ہیں اور حادثات کا یہ نہ رکنے والا سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔۔
سندھ سمیت ملک بھر میں ریلوے کے یہ حادثات کیوں پیش آرہے ہیں ، ان حادثات میں قصور وار کون ہیں اور حادثات کے بعد محکمہ ریلوے اور ریلوے انتظامیہ کی جانب سے جو انکوائریز ہوتی رہی ہیں ان کی روشنی میں ریلوے حادثات کی وجوہات کا کتنی حد تک اندازہ لگایا جاسکا ہے اوران انکوائریز کی روشنی میں ریلوے کی بہتری کے لئے کتنی حد تک کام ہوا ہے ۔۔ حادثات میں ملوث افراد کو کیا سزائیں دی گئیں اور ریلوے لائین کی بوسیدہ پٹڑیوں سمیت ریلوے کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے ہنگامی طور پر کیا اقدامات کئے گئے ، یہ سارے وہ سوال ہیں جن کے جواب ابھی تک عوام کو ملنے باقی ہیں ۔
یہ بات تو طئے ہے کہ انگریز دور میں بننے والی پاکستان ریلوے کی پٹڑیاں بہت ہی خستہ حال ہوگئی ہیں اور وہ اب ان ٹرینوں اور مال بردار گاڑیوں کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں رہیں اور اسی بات کا انکشاف ریلوے سکھر ڈویزن کے حوالے سامنے آیا ہے کہ ریلوے سکھر ڈویزن کے 46 مقامات پرریلوے لائنوں کی انتہائی حالت خراب ہوگئی ہے جس کے باعث ان 46 مقامات پرکسی بھی وقت کوئی بھی بڑا حادثہ رونما ہوسکتاہے ۔ محکمہ ریلوے کی جانب سے اپنی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ خراب ترین ان 46 مقامات پرمسافر ریل گاڑیوں اور مال بردار گاڑیوں کی رفتار کم کرکے 10 سے 80 کلومیٹر فی گھنٹہ کی جارہی ہے ۔۔جس سے دونوں اطراف کے سفر میں دو گھنٹے کا مزید اضافہ ہورہا ہے۔۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کراچی سے پنجاب جانے والی اپ ٹریک پر ٹنڈو آدم سے خانپور تک 456 کلومیٹرز میں سے 153 کلومیٹرٹریک سخت متاثر ہوا ہے ۔۔رپورٹ کے مطابق 153 کلومیٹر متاثر ٹریک کے 21 مقامات کو حساس قرار دیا گیا ہے۔
پنجاب سے کراچی جانے والے ڈاون ٹریک پر خانپور سے ٹنڈو آدم تک181 کلومیٹر ٹریک انتہائی شدید متاثر ہے ۔۔ٹریک کے 25 مقامات کو حساس قرار دیا گیا ہے جہاں ٹریک کی حالت بہت ہی خراب ہے ۔۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دونوں ٹریکس کے حساس مقامات پر مسافر ریل گاڑیوں کی رفتار 105 کلومیٹر فی گھنٹے سے کم کرکے 10 سے 80 کلومیٹر فی گھنٹہ کی جارہی ہے جس سے گاڑیوں کے سفر میں کم از کم دوگھنٹے کا اضافہ ہورہا ہے ۔۔
رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ سکھر ڈویزن میں 90 کلومیٹر ٹریک قیام پاکستان دور سے بھی پہلے کا بنا ہوا ہے ۔۔ جہاں ریلوے کی پٹڑیوں کے نیچے لکڑی کے بلاک بچھے ہوئے ہیں جن پر ٹرینیں گذرتی ہیں۔۔۔
محکمہ ریلوے کی جانب سے اپنے ہی نظام کے بوسیدہ ہونے کی تصدیق کے بعد بھی اگر ریلوے کی وزارت کوئی ہنگامی اقدامات اٹھانے میں قاصر ہے تو پھراس کا مطلب ہے کہ وہ ریلوے کا سفر کرنے والے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں اور انہیں داو پر لگارہے ہیں ۔۔
وزیراعظم پاکستان عمران خان ، وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید سمیت محکمے کے تمام اعلیٰ افسران کو ریلوے کے حوالےسے اپنے ادارے کے خدشات کو فوری طور پر دور کرنے کے لئے اقدامات کرنے ہوں گے اور عوام میں ریلوے کے سفر سے بڑھتے ہوئے خوف کو نکالنے لئے عملی طور پر کام کرنا ہوگا ۔۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔