گم ہوتا کراچی، کلفٹن کا کیسینو

زاہد حسین

کراچی جو برطانوی راج سے دنیا کی نظروں میں آیا اور برصغیر میں ایک بڑا شہر کہلایا، آج ڈھائی کروڑ کی آبادی کے ساتھ پاکستان بھر کی کفالت کا ذمے دار ہے۔

اس شہر نے بے شمار اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں اور گزشتہ پانچ دہائیوں میں آنے والے مد و جزر نے اس شہر کے نہ صرف محلِ وقوع بلکہ یہاں کی ثقافت، تمدن، معیشت، زبان، معیارِ تعلیم، اندازِ حکومت اور اطوارِ سیاست کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ہر گزرتے سال ترقی کرنے والے اس شہر نے تنزلی کا سفر شروع کیا اور یہ سفر ابھی رکا نہیں ہے۔ بے شمار تاریخی عمارات کو سرکاری عدم توجہ اور بعض کو خصوصی توجہ نے تباہ کردیا۔ کچھ کو وقت کا عفریت چاٹ گیا اور کچھ کو بدلتے عوامی رجحان نے ملیا میٹ کردیا۔

آج ہم ذکر کریں گے کراچی کی اس عمارت کا جو آباد نہ ہوسکی اور پھر اس کا وجود ہی ختم کردیا گیا۔ آج اس عمارت کی جگہ ملک کا بڑا شاپنگ مال قائم ہے۔ ہائپر اسٹار یا ڈولمن مال نامی یہ عمارت شہر کے صاحبانِ ثروت کے لیے شاپنگ کا پہلا انتخاب ہے۔ اس کے قیام سے پہلے 1975-76 کے درمیان یہاں ایک عمارت تعمیر کی گئی، اس عمارت کو ملک کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا کیسینو بننا تھا، یہ خواب پورا نہ ہوسکا اور یوں اس عمارت کا ڈھانچا اور درو دیوار برسوں ہوا سے سرگوشیاں کرتے کرتے بالآخر دم توڑ گئے۔

اس عمارت کے قیام کے لیے اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بڑے تفریحی تجارتی ٹائیکون طفیل شیخ کو زمین الاٹ کی۔ طفیل شیخ پہلے سے کراچی میں ایک ہوتل اور نائٹ کلب چلا رہے تھے۔ یہ قطعہ اراضی الاٹ کرنے کا مقصد یہاں ایک بڑے کیسینو کی تعمیر تھا، جو اس وقت بیروت میں ہونے والی خانہ جنگی سے اکتائے ہوئے عرب حکمرانوں کو کیفیت طرب فراہم کرنے کا ذریعہ بن سکے۔ لبنان اور اسرائیل کی جنگ سے قبل عرب شیخ اور امریکی حکمران تھکن دور کرنے کے لیے بیروت کا رخ کرتے تھے، جہاں کے کیسینو ان کی تھکاوٹ دور کرنے کا سامان سمیتے ان کے منتظر رہتے تھے۔

کراچی کے ساحل پر کیسینو کی تعمیر اپریل 1977ء میں مکمل کرلی گئی۔ یہ ایک بڑی اور عظیم الشان عمارت تھی، جس میں ایک بڑا ہال تھا۔ اس ہال میں جوئے کی ٹیبلز اور مشینیں رکھی گئی تھیں۔ اس کیسینو میں شراب خانے، ریستوران، مہمانوں کے لیے پرتعیش کمرے اور نائٹ کلب بھی موجود تھا۔ اس وقت کی بھٹو حکومت کا خیال تھا کہ اس کیسینو کے قیام سے نہ صرف ملکی معیشت میں انقلابی تبدیلی رونما ہوگی بلکہ زرِ مبادلہ میں بھرپور اضافہ ہوگا اور ملکی صنعت بھی ترقی کرے گی۔

مارچ 1977ء میں دائیں بازو کے اتحاد پاکستان قومی اتحاد کی جانب سے کیسینو کے قیام کے خلاف پر تشدد احتجاج نے بھٹو حکومت کو اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور کردیا اور بھٹو نے اپوزیشن اتحاد کے مطالبات تسلیم کرلیے کہ وہ ملک سے نائٹ کلب بند کردیں گے اور ملک میں جوئے خانے، گھوڑوں کی ریس اور مسلمانوں کے لیے شراب کی فروخت پر پابندی عائد کردیں گے۔ کیسینو کے افتتاح سے قبل ہی اس فیصلے کا نفاذ بھی کردیا گیا۔

ابھی اس فیصلے اور اس کے اطلاق کو دو ماہ بھی نہ گزرے تھے کہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل ضیاء الحق مارشل لا نافذ کردیا اور ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کرلیا گیا اور ساتھ ہی ملک کے پہلے کیسینو کو اپنے باضابطہ افتتاح سے پہلے ہی ہمیشہ کے لیے بند کردیا گیا۔ یوں کراچی کے ساحل پر سرخ سینڈ اسٹونز سے تعمیر کردہ یہ منفرد ہال اپنی تعمیر سے تخریب کے سفر پر روانہ ہوگیا، حالانکہ اس عمارت کو منہدم کرنے کی بجائے اسے تعلیمی، طبی یا کسی اور مثبت سرگرمی کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا۔

اس عمارت کی تعمیر میں اس وقت ساڑھے پانچ کروڑ روپے کا خطیر سرمایہ استعمال ہوا۔ اس کا رقبہ پانچ ہزار مربع گز زائد تھا، جو اس وقت تجارتی بنیادوں پر تعمیر کی جانے والی عمارتوں میں سب سے زیادہ تھا۔ اس کے بڑے ہال میں دولتمند افراد کی تفریح کے لیے مہنگے ترین ریستوران، نائٹ کلب، جؤا خانہ اور رہائشی سہولیات فراہم کی گئیں تھیں۔ یہاں عیاش طبع مردوں کے لیے کال گرلز کی دستیابی بھی یقینی بنائی گئی تھی۔ بھٹو دور میں قائم ہونے والے اس بڑے پروجیکٹ کو کراچی کی معروف کمپنی العادل انٹرنیشنل متعارف کرایا تھا، جس کے مالک اس وقت کے نوجوان اور خوش طبع سرمایہ کار طفیل شیخ تھے۔ طفیل شیخ کو بھٹو خاندان کے قریبی دوستوں میں شامل افراد میں اہم حیثیت حاصل تھی۔

طفیل شیخ کراچی میں ایک ہوٹل اور ایک پینٹ ہاؤس نائٹ کلب کا بھی مالک تھا۔ پاکستان میں طفیل شیخ کو بدنامِ زمانہ میگزین "پلے بوائے’ کے بانی ایڈیٹر انچیف آنجہانی ہیو ہیفنر کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ طفیل شیخ نے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے قریبی تعلق کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے اس بڑے پروجیکٹ کے لیے پاکستان کے قومیائے گئے پانچ بینکوں کے کنسورشیم سے دو کروڑ روپے کا قرض حاصل کیا تھا۔ یہ قرض دراصل اسی علاقے میں ایک رہائشی ہوٹل کے قیام کے لیے حاصل کیا گیا تھا، لیکن قانونی طور پر طے کردہ اس کے اغراض و مقاصد سے روگردانی کرتے ہوئے یہاں رہائشی ہوٹل کی بجائے کیسینو کے لیے عمارت تعمیر کرلی گئی۔ ساتھ ہی کچھ خاص قوانین بھی پارلیمنٹ سے منظور کرائے گئے، جن کی رو سے اس عمارت کی انسپیکشن یا کسی بھی قسم کی جانچ پڑتال کے لیے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس اور ڈائریکٹر آف ایکسائز سے نیچے کوئی سرکاری افسر اس عمارت میں داخل نہیں ہوسکتا تھا۔

جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دوران کئی دیگر مہنگی ترین پرتعیش عمارتوں کی طرح غیر فعال کیسینو کی عمارت بھی عالمِ نزع میں رہی۔ اس کے بعد مارشل لاء حکومت کی قائم کردہ ایک ٹیم نے، جس کی سربراہی بریگیڈیئر قمرالاسلام کر رہے تھے، اس عمارت کو حکومتی تحویل میں لینے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کے خلاف ایک غیرملکی ہوٹل چین نے اس کنسورشیم کے تحت اس پروجیکٹ کو اپنے طور پر مکمل کرنے کے لیے سرتور کوششیں کیں۔ اس وقت کراچی میں صرف تین فائیو اسٹار ہوٹلیں، دی ہلٹن، شیرٹن اور حیات ریجینسی ہی تھیں جو پاکستان کے چار شہروں میں غیرملکی گروپس کی مہمان داری کے فرائض انجام دے رہی تھیں۔

اپنی تعمیر مکمل ہونے اور افتتاح سے پہلے بند ہوجانے والی یہ عمارت اٹھارہ برس تک ویران پڑی رہی۔ لوگ کوٹھاڑی پریڈ سے ہوتے ہوئے جب عبداللہ شاہ غازی کے مزار سے ساحل کی طرف مڑتے تو اس عمارت کی سر نظر آنا شروع ہوجاتا اور ساحل پر پہنچ کے یہ عمارت پوری نظر آنے لگتی۔ عمارت کے استعمال نہ ہونے اور کوئی دیکھ ریکھ نہ ہونے کے باعث ایک جانب یہ عمارت اپنا حسن کھونے لگی، بلکہ اس کے آس پاس خود رو جھاڑیاں بھی اگ آئیں، جس نے اسے اور بھی خوف ناک بنادیا۔ وقت آہستہ آہستہ رینگتا رہا اور یوں اٹھارہ برس بیت گئے۔ 1995ء میں اس عمارت کو بچوں کے لیے تفریحی پارکس کی کمپنی سند باد نے کرائے پر حاصل کرلیا۔ اس عمارت کے بڑے ہال میں بچوں کی تفریح کے لیے خوبصورت بہترین جھولے لگے تو شہر بھر کے والدین اپنے بچوں کو لے کر کلفٹن کے ساحل پر قائم سند باد پہنچنے لگے اور یوں یہ سرخ عمارت آباد ہوگئی۔

بچوں کو بہترین تفریح مہیا کرنے کے لیے سند باد کی انتظامیہ نے یہاں برطانیہ سے کھیلوں کی مشینیں اور جھولے درآمد کیے۔ اب یہ برطانوی کمپنیاں ختم ہوچکی ہیں اور ان کی جگہ چینی کمپنیوں نے لے لی ہے۔ یہاں نصب کیا جانے والا سب سے اہم جھولا "وینچرر” تھا، جو لندن سے منگوایا گیا تھا۔ کراچی کے بچوں نے اس جھولے پر بہت لطف اٹھایا، اب یہ جھولا لاہور کے سندباد میں نصب ہے۔ یہ جھولا بنانے والی کمپنی اب جھولے بنانے کا کام ختم کرچکی ہے اور آج کل پائلٹس کی بہترین تربیت کر رہی ہے۔

کئی برس یہ عمارت بچوں کے لیے تفریح کا سامان فراہم کرتی رہی لیکن ایک بار پھر اسے خاموش کرادیا گیا۔ اگلے کئی برس اسی خاموشی میں گزر گئے اور یوں جھولوں اور بچوں سے آباد رہنے والی یہ عمارت ایک بار پھر سنسان ہوگئی۔ اس کے ارد گرد خود رو جھاڑیاں ایک بر پھر اگ آئیں اور لوگ اسے صرف دور ہی سے دیکھنے پر اکتفا کرنے پر مجبور ہوگئے۔ اسی طرح مزید کئی برس بیگ گئے اور نئی صدی کی دوسری دہائی شروع ہوگئی۔ گزشتہ کی ربع چوتھائی جاں کنی کی حالت میں گزارنے والی یہ عمارت دو ہزار گیارہ میں عالم سکرات میں تھی اور اپنی آخری سانسین گن رہی تھی کہ ریئل استیٹ کی ایک بڑی شخصیت کی نظر اس پر پڑی اور یہ تاریخی حیثیت کی حامل عمارت نہ صرف خرید لی گئی بلکہ اسے مکمل طور پر مسمار بھی کردیا گیا۔ اس عمارت کو گرانے کے بعد یہاں بہت بڑا شاپنگ مال قائم کیا گیا، ڈولمن مال نامی اس شاپنگ سینٹر کی خوبصورتی اور اسے اس قدر آباد دیکھ کر بعض افراد یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ کیسینو کو اگرچہ ڈھادیا گیا ہے لیکن پرانے مالک کے خواب کو اس کے نئے مالک نے پورا کردیا ہے۔ آج یہ عمارت نہ صرف آباد ہے بلکہ کراچی کو اس نے نے دبئی کی صف میں لاکھڑا کیا ہے۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔