بلوچستان کے بلدیاتی انتخابات، تازہ ہوا کا جھونکا

حالیہ چند مہینوں سے پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر بے یقینی، بے اعتمادی کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ ہر طرف مایوسی سی چھائی ہوئی ہے اور اس بے یقینی، مایوسی کی کشمکش کے دوران بلوچستان میں پُرامن بلدیاتی انتخابات کا انعقاد جیسے تازہ ہوا کا جھونکا بن گیا ہے۔
بلوچستان پاکستان کا سب سے زیادہ حساس صوبہ ہے، جہاں امن و امان کی صورت حال کا معاملہ بہت سنجیدہ اور توجہ طلب ہے۔ اس شورش زدہ ماحول میں ایک دہائی کے وقفے کے بعد بلوچستان میں الیکشن ناصرف پُرامن طریقے سے ہوئے بلکہ خوش آٗئند طور پر بلوچستان کے عوام کی بڑی تعداد نے اس الیکشن میں حصہ لیا۔ 17779 امیدوار قریباً 4,556 نشستوں پر ایک دوسرے کے مدمقابل تھے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ووٹرز ٹرن آؤٹ بھی بہت غیر معمولی دیکھنے میں آیا۔ موسم کی شدت، طویل فاصلے اور سیکیورٹی خدشات کے باوجود عوام کی کثیر تعداد نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرتے ہوئے 17779 اُمیدواروں کا انتخاب کیا، تربت ڈویژن میں ووٹ کاسٹ کرنے کا تناسب 61 فیصد رہا، جو بہت ہی مثبت ہے۔
اس الیکشن نے یہ بھی ثابت کیا کہ بلوچستان کے عوام اپنے حقوق کے حصول کی خاطر آئینی راستہ اختیار کرنے کے لیے پُرعزم ہیں۔
آزاد امیدواروں کی زبردست کامیابی یہ ثابت کرتی ہے کہ بلوچ عوام روایتی سرداری نظام سے اب چھٹکارا چاہتے ہیں۔ اس الیکشن سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ بلوچستان کے عوام تبدیلی اور اپنی نمائندہ قیادت چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی سیاسی قیادت روایتی سرداری نظام میں جکڑی نہ ہو، بلکہ ان کی سیاسی قیادت وہ ہو جو درست معنوں میں ان کے مفادات کو پیش نظر رکھے اور عوام کے ساتھ جڑی ہو۔
اسی لیے آزاد اُمیدواروں کی بڑے پیمانے پر کامیابی قومی و علاقائی سیاسی جماعتوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ بلوچستان اپنے لیے تبدیلی کا کس قدر خواہاں ہے، اس کا اندازہ گوادر کے نتائج سے لگایا جاسکتا ہے، جہاں مولانا ہدایت الرحمان کی "گوادر کو حق دو تحریک” کے حمایت یافتہ امیدواروں نے 39 میں سے 27 نشستیں جیت کر کلین سوئپ کیا۔
مولانا ہدایت الرحمان کی کامیابی اِس بات کا ثبوت ہے کہ بلوچ عوام سیاسی عمل پر یقین رکھتے ہیں اور کسی طرح کے مطالبات بندوق کے ذریعے حل کرنے کے تصور کو یکسر نظرانداز کرتے ہیں۔
خواتین ووٹروں کا ٹرن آؤٹ اور خواتین اُمیدواروں کی تعداد اِس بات کی نشان دہی ہے کہ بلوچستان کی محبِ وطن خواتین نے انتہاپسندی کے اِس بیانیے کو مسترد کردیا، جس کا پَرچار شاری بلوچ جیسی خواتین کا استعمال کرنے والے عناصر کررہے تھے۔ یہ تبدیلی کی ہواؤں کی پہلی نشانی ہے جو جلدہی بلوچستان کو ترقی پسند خطے میں تبدیل کردے گی۔
بلوچستان کے عوام کو داد دینا ہوگی کہ انہوں نے علیحدگی پسندوں کی طرف سے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کے دھمکی آمیز پیغامات کو نظرانداز کیا، جس کی وجہ سے جمہوری عمل پر یقین ایک انتہائی مثبت روش کے طور پر سامنے آیا ہے۔
یہ مثبت پیغام بھی سامنے آیا کہ عوام پاکستان کے جمہوری انتخابی نظام پر یقین رکھتے ہیں اور بلوچستان کو پاکستان کے صوبے کی حیثیت سے تسلیم کرتے ہیں۔
بلوچستان بلدیاتی الیکشن سے دنیا کو یہ پیغام جاتا ہے کہ بلوچ عوام متحدہ پاکستان پر یقین رکھتے ہیں اور وہ غیر ملکی عناصر کے ان عزائم کو اچھی طرح سمجھتے ہیں جو وہ علیحدگی پسند گروہوں کو استعمال کرکے جیو پولیٹیکل فائدے اٹھانا چاہتے ہیں۔
بلوچستان بلدیاتی الیکشن اس بات کی طرف بھی مثبت اشارہ ہیں کہ یہاں کے عوام اپنے مستقبل کے لیے ووٹ دے رہے ہیں۔
ان بلدیاتی انتخابات کی ایک خاص بات یہ ہے کہ دوران الیکشن بلوچستان کے کسی بھی حصے سے دھاندلی کے سنگین الزامات کی اطلاع نہیں ملی۔
یہ بلوچستان کے اندر انتظامی نظام میں ایک بڑی تبدیلی ہے، کیونکہ صوبے کے مختلف حصوں میں اقتدار ماضی کی غالب جماعتوں سے مقامی رہنماؤں کے پاس منتقل ہوچکا ہے۔
لوگوں کا اپنے مقامی طور پر منتخب رہنماؤں پر بہت زیادہ اعتماد ہے اور ان آزاد امیدواروں کے پاس اب ہر علاقے کی ضروریات کے مطابق مناسب تبدیلی لانے کا موقع ہے۔ صوبے کے علاقائی نمائندوں کو حکمرانی کے کردار میں پہلے سے کہیں زیادہ آزادی حاصل ہے۔
پورے انتخابی عمل کے دوران امن و امان کو برقرار رکھنے میں سیکیورٹی فورسز کا کردار بھی قابل تعریف ہے۔
الیکشن کو علیحدگی پسند دہشت گرد جماعتوں کی جانب سے حملوں کا بہت سنگین خطرہ تھا۔ تاہم صوبے بھر میں ووٹنگ بڑی حد تک پُرامن رہی۔
ووٹنگ کے پورے عمل کے دوران، ضلع چاغی میں سیاسی دشمنی کی وجہ سے فائرنگ کے تبادلے میں ایک شخص ہلاک ہوا جب کہ دیگر جگہوں پر ہونے والی چھوٹی چھوٹی لڑائیوں میں تین درجن سے زائد افراد زخمی ہوئے۔
اِن انتخابات کا انعقاد جس پُرعزم انداز میں ہوا اُس کے لیے افواج کے ساتھ باقی قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی شاباش کے مستحق ہیں، جس کا اعتراف وزیرِاعظم پاکستان، وزیرِاعلیٰ بلوچستان، چیف الیکشن کمشنر اور بلوچستان کے عوام نے کیا۔
لیکن پاکستان کے سیاسی نظام کا ایک بہت بڑا المیہ ہے، جہاں تمام جماعتیں بااختیار بلدیاتی اداروں کی ضرورت کے بارے میں فصاحت و بلاغت کا اظہار کرتی ہیں، لیکن عام طور پر مذکورہ اداروں کو بااختیار بنانے سے انکار کرتی ہیں۔
دوسری جانب لیکشن جیتنا ایک بات ہے جب کہ کیے گئے وعدوں کو پورا کرنا بالکل مختلف بات۔
ہماری بدقسمتی بلدیاتی ادارے کاغذ پر بااختیار ہونے کے باوجود صوبائی حکومتوں کے رحم و کرم پر ہیں، جن کا سب سے بڑا مسئلہ اقتدار اور اختیارات سے اپنی دسترس میں رکھنا ہے۔
ضروری ہے کہ اٹھارویں ترمیم کی روح کے عین مطابق اِن جیتنے والے اُمیدواروں کو فعال بنایا جائے اور اقتدار کی نچلی سطح تک منتقلی کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اِن کو مکمل معاونت فراہم کی جائے، تاکہ یہ اپنے اپنے علاقوں کی فلاح و بہبود کو یقینی بناسکیں۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔