بلوچستان ملکی معیشت کے لیے امید کی واحد کرن

میر عبدالصمد بروہی

آج ہم جس خطے میں سانس لے رہے ہیں، تاریخی و جغرافیائی اعتبار سے یہ کرہ ارض پر خدا کی بہت بڑی نعمت اور عطا سے کم نہیں۔ پاکستان بالخصوص بلوچستان جغرافیائی لحاظ سے دھرتی کے وسط پر موجود ہے، جہاں سے زمینی، سمندری و ہوائی سفری روٹس سے دنیا کی گزرگاہیں ہیں۔
ایک عظیم فکر و جدوجہد کے بعد پاکستان کا قیام عمل میں آیا، قیام پاکستان کی وجوہ میں ایک وجہ یہ شامل تھی کہ اس خطے کے تمام مسلمان ایک جھنڈے کے نیچے ایک طاقت بن کر خالصتا اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ایک مسلم ریاست کی صورت میں سامنے آئیں، اسی تناظر میں یہ سیاسی و جہادی جدوجہد کی روشنی میں مسلماناں ہند نے فتح پائی۔ اس فتح کی صورت میں تمام مسلم ریاستوں نے پاکستان کو قبول کیا اور ساتھ مل کر ایک جھنڈا، ایک زبان، ایک قومی تشخص کو جنم دیا۔

پاکستان کے وجود کے بعد سے پاکستان کو بے تحاشا بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑا جس میں سب سے بڑا مسئلہ معاشی مشکلات اور معاشی صورت حال سے مستقبل میں کیسے نمٹا جائے گا، سب سے اہم تھا۔ اسی تناظر میں بین الاقوامی سازشوں نے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت شروع کی، جس کی پاداش میں یہاں بیرونی ممالک نے نان اسٹیٹ ایکٹرز پر سرمایہ لگانا شروع کیا، تاکہ یہ نان اسٹیٹ ایکٹرز ان کے لیے آلۂ کار کے طور پر کام کرکے پاکستان کو سیاسی، معاشی و اقتصادی طور پر بطور ریاست منظم طریقے سے کام نہ کرنے دیں۔
پاکستان جہاں معاشی مشکلات سے نمٹنے کے لیے اقدامات کررہا ہے، وہیں اس ریاست کو بدعنوانی جیسی بیماریوں نے تباہ کن معاشی حالات کے دہانے پر لاکھڑا کردیا ہے۔
آج اس ریاست کے قیام کو 75 سال ہوچکے مگر آج بھی ہمارا اولین مسئلہ معاشی بدحالی ہے۔ آج ہم ایٹمی قوت ضرور ہیں مگر ہم معاشی قوت نہیں بن سکے، جس کی شاید ہمارے پاس پوٹنیشیل بھی موجود ہے، پاکستان کو اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبہ بلوچستان موجود ہے، جہاں قدرت نے وہ سب کچھ بطور تحفہ ہمیں عطا کر رکھا ہے جو کسی بھی ملت کی تقدیر بدلنے اور دنیا کی طاقتور ریاستوں کی دوڑ میں شامل کرنے کی خاطر کافی ہے۔

بلوچستان پاکستان کا پس ماندہ ترین صوبہ ہے مگر اس میں 40 سے زائد معدنی ذخائر پائے جاتے ہیں، جن میں تیل، گیس، سونا، تانبہ، یورینیئم، کولٹن، خام لوہا، کوئلہ، اینٹی مونی، کرومائٹ، فلورائٹ، یاقوت، گندھک، گریفائٹ، چونے کا پتھر، کھریا مٹی، میگنائٹ، سوپ اسٹون، فاسفیٹ، درمیکیولائٹ، جپسم، المونیم، پلاٹینم، سلیکاریت، سلفر، لیتھیم، قدرتی گیس، تیل سمیت دیگر قیمتی دھاتیں شامل ہیں۔
ریکوڈک میں تانبے کے وسیع ذخائر پائے جاتے ہیں، جن میں 5.8 بلین ٹن تک خام تانبا موجود ہے جب کہ آتشی چٹانوں میں 0.41 فیصد تانبہ اور 0.22 گرام فی ٹن سونا موجود ہے، تاہم سینڈک میں پائے جانے والے سونے کے ذخائر الگ ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق گوادر، پسنی، جیوانی اور اورماڑا کے نزدیک سمندر میں تیل اور گیس کے بے پناہ ذخائر کی تصدیق ہوچکی ہے، ساحل مکران کے آس پاس قدرتی گیس کے ذخائر جب کہ بحیرۂ عرب کے ساتھ سمندری حدود میں تیل کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔
جس وسیع مقدار میں یہ قیمتی قدرتی وسائل جو بلوچستان میں پائے جاتے ہیں، سب جو شاید ہی کسی اور خطے میں اس مقدار میں پائی جاتی ہو مگر بدقسمتی کہ اتنا وسیع قدرتی وسائل رکھنے والا صوبہ خود ضرورت زندگی کے وسائل سے محرومی میں صف اول پر ہے۔

بلوچستان دھرتی پر اتنی پوٹنیشیل ہے اگر اس کے ان سارے وسائل کو آزادی کے ساتھ بروئے کار لایا جائے تو بلوچستان سمیت پاکستان دنیا بھر میں اپنی اہلیت کو ثابت کرکے اہم معاشی قوتوں فہرست میں شامل ہوسکتا ہے، مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ ٹھوس، مثبت، منظم پالیسی مرتب کی جائے۔
بلوچستان پاکستان کا وہ صوبہ ہے جس سرزمین پر سیاسی سوچ نے ہمیشہ مزاحمتی راہ کو چنا، ہر وقت سیاسی فکر و سوچ رکھنے والوں نے غیر آئینی اقدامات کی راہ میں رکاوٹ بننے کی کوشش کی، بلوچستان کے حالات کے تناظر میں اس سرزمین پر آزادی اظہار رائے پر ہمیشہ قدغن لگی مگر بولنے اور لکھنے والوں نے اس طرز عمل کی شدید ترین لفظوں میں مذمت کی بلکہ ان اقدامات کے خلاف مزاحمت کی، تاہم جہاں سیاسی ماحول گرما گرم رہا، وہیں بلوچستان کے نوجوان سے یہ چونک ہوئی کہ ہمارے بہت سارے نوجوانان کچھ شعلہ بیاں مقرروں کی باتوں میں آکر ریاست کے خلاف بیرونی ممالک کی سرپرستی میں ان کی سرمایہ کاری پر پاکستان کے سلامتی کے خلاف چلنے والی تحریکوں کا حصہ بن گئے، جن کا ناصرف بلوچستان کو نقصان ہوا، وہیں پاکستان کو بھی شدید نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔
بلوچستان آج وہ واحد راستہ جہاں سے سی پیک جیسے پروجیکٹ کی صورت میں ہم دنیا سے ون بیلٹ ون روڈ کے ذریعے سرمایہ داری کرکے دیگر ممالک کو کاروباری راستہ فراہم کرسکتے ہیں، اس کے لیے ضروری ہے کہ بلوچستان کے اندرونی مسائل کا ادراک کرکے ان کے حل کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔ بلوچ نوجوانوں، طلباء، مزدوروں، ماہی گیروں کو، کسانوں کو مضبوط کرکے یہاں کے اندرونی مسائل پر خصوصی توجہ دینی چاہیے، تاکہ پُرامن ماحول کی راہ ہموار ہوسکے۔ سی پیک کے ذریعے ہم دنیا بھر کو بلوچستان کے ذریعے دنیا سے جوڑ کر اقتصادی راہ داری کی بدولت اقتصادی قوت بن سکیں۔
بلوچستان پاکستان کے معاشی مسائل کے حل کے لیے واحد امید کی کرن ہے، اگر یہاں ملکی سطح کے کاروباری مراکز کا قیام عمل میں لایا جائے، مختلف علاقوں میں وہاں کے وسائل کے اعتبار سے عوام کو حق ملے، اس کی صورت میں اسی مقام پر فیکٹریاں لگائی جائے، بلوچستان کے وسائل پر بلوچ غریب عوام کو ان کا ذاتی حق ملے۔ بلوچستان پاکستان کا کل ہے، اس کل کو بہتر بنانے کے لیے آج بڑے فیصلوں کی اشد ضرورت ہے۔ سیاسی انداز میں معاشی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان قدرتی ذخائر سے ہمیں مستفید ہونے کی ضرورت ہے۔
بلوچستان کے عوام کی محرومی کے باعث ہم ان قدرتی ذخائر سے مستفید ہو نہیں رہے، بلوچستان کے عوام کو تعلیم، صحت، روزگار کے مواقع فراہم کرنا ریاست کی اہم ذمے داری ہے، جس کے ذریعے آج کا بلوچستان کل پاکستان کی معاشی شہہ رگ بن سکتا ہے۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔