جب ہم لٹل ماسٹر حنیف محمد سے ملے

اقبال خورشید یہ اس ممتاز بلے باز کا ذکر ہے، جس کا ایک عالم گرویدہ تھا، جس کے انداز بلے بازی نے نئی جہت متعارف کروائی اور جو اپنی مثال آپ قرار پایا۔ رنگین عینک۔ گلے میں رومال۔ سیلقے سے جمے بال۔ دھاری دار قمیص۔ اور کشدہ مسکراہٹ! کچھ

ڈھشما: بہ یک وقت متنفر اور معترف کرنے والی دل چسپ کتاب

تجربہ اس کتاب کی اساس ہے، اور فلسفیانہ مزاح وہ ستون، جن پر یہ عمارت کھڑی ہے۔ بہ یک وقت منتشر اور منظم، ہم آہنگ اور بے ہنگم ، پرلطف اور پر پیچ۔ ایک زاویے سے ڈراما، دوسرے سے نوویلا۔ ورجینا ولف نے کہا تھا کہ ناول میں دنیا کا ہر موضوع سمویا…

آسکرز 2021: غیرسفید فاموں کی جیت یا سیاسی فیصلہ؟

یوں تو آسکرز کی رنگا رنگ تقریب ہر برس ہی موضوع بحث بنتی ہے، مگر اس بار کی تقریب میں کچھ خاص تھا۔ ایسا خال خال ہوتا ہے کہ آسکرز میں ایک برس کے بجائے دو یا ڈیڑھ برس کی فلموں کا احاطہ کیا جائے۔ اور اس بار بھی یہی معاملہ ہے، ۲۰۲۰ کے ساتھ ۲۰۲۱…

اسٹریس، ایک وبا: کیا محمد شاہ نواز کے پاس اس کا حل موجود ہے؟

اسٹریس ایک حقیقت ہے، ذہن میں ہونے والی کیمیائی تبدیلیاں ہمارے جسم پر اثرات مرتب کرتی ہیں، جس کی سائنسی بنیادوں پر پیمائش کی جاسکتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار Learning اور Personality development کے میدان میں سرگرم معروف ٹرینر محمد شاہ نواز نے…

عثمان جامعی کا ناول، جس نے کراچی کی خوابیدہ کہانیوں کو جگا دیا

کراچی، کہانیوں سے پر شہر ہے، اور اکثر کہانیاں کرب ناک ہیں، مگر کہانی کار کے لیے فقط کرب بیان کرنا کافی نہیں۔ قطعی نہیں۔ فن کار تو وہ ہے، جو اس کی گہرائی میں اترے، اس کے اسباب تک رسائی پائے، بکھرے ہوئے ٹکڑوں کو جوڑے، ان میں احساس کا طلسم…

جب یاسر حبیب نے امریکی کہانیوں کی محفل سجائی، تذکرہ ایک بیش قیمت کتاب کا

کیا آپ جیک لنڈن، ہیمنگ وے، مارک ٹوئن سے ملنا چاہتے ہیں؟ کیا آپ نوبیل انعام یافتہ ادیب ایلس منرو، ٹونی موریسن اور آئزک بشوس سنگر کو پڑھنے کے خواہش مند ہیں؟ یا بکر اور پلٹزر پرائز سے نوازے جانے والے ایلس واکر اور مارگریٹ ایڈورڈ کی کہانیوں کی

ایک قدآور دبدبہ

وہ لاہور کی ایک خاموش صبح تھی، جب ایک پنچ ستارہ ہوٹل کے پارکنگ ایریا میں ایک ٹیکسی آن کر رُکی۔اور اس میں سے ایک بوڑھا، لمبا چوڑا آدمی، جس نے ٹراؤز پہن رکھا تھا، اور اوپر ٹی شرٹ تھی، جس پر کوٹ چڑھا تھا، نیچے اترا۔اس کے ہاتھ میں چھڑی تھی۔

انتظار: ایک ٹھہری ہوئی کہانی!

ایک بار ایک ادبی کانفرنس میں،بھیڑ بھاڑ میں، شور شرابے میں، کھانے کے وقفے میں ۔ ۔ ۔ ۔ہماری نظری میز کے ادھر کھڑی "خاموشی" پر پڑی۔انتظار حسین صاحب،ایک کہانی کی صورت ہمارے سامنے تھے۔لاتعلق، مطمئن اور اساطیری۔وہ دھیرے سے آگے بڑھے۔انھوں نے میز

ڈیگو:جادوئی میدانوں کا فسوں گر رخصت ہوا!

جب تک فٹ بال کا کھیل زندہ ہے، میراڈونا کا نام زندہ رہے گا اقبال خورشید سن 86 کے دو مناظر میرے ذہن میں محفوظ ہیں۔یوں، جیسے کل ہی مجھ پر بیتے ہوں۔ایک منظر قصبہ علی گڑھ کے فسادات کا ہے۔ اوردوسرا؛ ڈیگو کی دمکتی مسکراہٹ کا۔پہلے منظرمیں

جب حسن منظر نے پریم چند سے ہماری ملاقات کرائی

کئی برسوں پر محیط تعلق اور متعدد انٹرویوز کی وجہ سے میں اس واقعے کے رونما ہونے کا منتظر تھا۔ کورونا سے لڑتے ہوئے، سماجی فاصلے کے اس نئے عہد میں یہ ایک بڑی خوش خبری تھی۔پختہ، گتھا ہوا اسلوب، جملے کی ساخت میں نیا پن، غیر ملکی لوکیل پر حیران