عالمی یوم ِماحولیات:’ ایکوسسٹم کی بحالی ‘ کا عالمی مقصد

تحریر: علی باسط

 

اقوام متحدہ کے زیراہتمام ہر سال 5 جون عالمی یوم ماحولیات کے طور پر منایا جاتا ہے تاکہ عالمی سطح پرماحول کے تحفظ کا فروغ ہو  اور ریاستوں کو عملی اقدامات کی ترغیب دی جا سکے۔ 1974 سے اس دن کو ہر سال باقاعدگی سے منایا جارہا ہے اور اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف کے مطابق ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے ترغیب میں ایک اہم مقام کا حامل ہے۔ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (UNEP) کے تحت دنیا بھر سے تقریبا 150 ممالک، اہم کارپوریشنز، غیر سرکاری تنظیمیں اور سول سوسائٹیز اس دن کو منانے میں حصہ لیتی ہیں تاکہ ماحولیاتی مسائل کے خاتمے کے لیے کام کیا جاسکے۔ رواں سال’ایکو سسٹم کی بحالی’ عالمی یوم ماحولیات کا عنوان ہے جس کا مقصد تنزلی کے شکار ماحولیاتی نظام کی بحالی کے لیے عالمی سطح پر کی جانے والی کوششوں کو ہم آہنگ کر نے کے لیے اقدامات کرنا ہے۔

 

ماحولیاتی نظام کے انحطاطی عوامل سے پہلے اور یہ انسانی ماحول پر ان کے اثرات کو زیر بحث لانے سے پہلے، اس امر پر روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے کہ اصل میں ماحولیاتی نظام(ایکو سسٹم) کیا ہے۔ یہ اپنی قدرتی رہائش گاہ اور اپنے ماحول کے غیر جاندار اجزاء کے ساتھ جاندار اور غیر جاندار حیاتیات کی ایک کمیونٹی ہے۔ اس میں دو بڑے اجزاء شامل ہیں: جاندار اور غیرجاندار۔ غیر جاندار اشیاء میں ہوا، پانی، سورج کی روشنی، غذائی اجزاء اور درجہ حرارت شامل ہیں۔ جبکہ جاندار اجزاء نظام میں موجود تمام حیاتیات جیسے کہ پودے، جانور،کائی، مائکرو حیاتیات اور انسان شامل ہیں۔

 

ماحولیاتی نظام کا انحطاط ایک ماحولیاتی مسئلہ ہے جو مختلف انواع کے زندہ رہنے کی صلاحیت کو کم کرتا ہے۔ گزشتہ 50 سالوں میں ماحولیات اور ماحولیاتی تنزلی کی شرح تاریخ کی بلند ترین سطح پر رہی ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب زمین کے قدرتی وسائل جیسا کہ پانی، ہوا اور مٹی، قدرتی عوامل (طوفان، سیلاب اور جنگل کی آگ)، جیو تنوع میں کمی، زراعت کے غلط طریقوں، زمین کا ناقص استعمال، اور انسانوں کی جانب سے پھیلائی جانے والی آلودگی کا شکار ہوجاتے ہیں جس سے ہمارے جنگلات کی زندگی، پودوں، جانوروں اور مائیکرو حیاتیات پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ مزید یہ کہ غیر مؤثر بین الاقوامی پالیسیاں ماحول کے مستقبل کو ایک نازک صورتحال میں چھوڑ دیتی ہیں جس سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح قابو سے باہر ہوجاتی ہے۔ پیش گوئی کی گئی ہے کہ صدی کے آخر تک زمین کا درجہ حرارت میں 11 ° فار ن ہائیٹ تک بڑھ جائے گا۔

 

اگر ہم ایکو سسٹم کو اسی طرح آلودہ کرتے رہے تو نہ صرف جانور بلکہ انسان بھی جلد ہی ناپید ہوجائیں گے اور زمین کبھی بھی قابل رہائش ماحولیاتی نظام نہیں بن سکے گی۔ انسانی  سرگرمیوں سے سمندری اور دیگر آبی ماحول سے حاصل ہونے والے فوائد کونظر انداز کرتے ہوئے ان کو تباہ کیا گیا ہے اور انحطاط کے ذریعے دنیا کا بیشتر ماحولیاتی نظام کو تبدیل ہو گیا ہے۔ لہذا، حیاتیاتی کمیونٹی اور لوگوں کے معاشی فوائد کے لئے ماحولیاتی نظام کی بحالی لازمی ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جو ماحولیاتی سالمیت کی بحالی  (ماحولیاتی عمل اور ڈھانچے میں تغیر، پائیدار ثقافتی طریقوں اوربائیو ڈائیورسٹی)میں مدد کرتا ہے۔ ماحولیات کی بحالی کے لیے استعمال کیے جانے والے طریقوں میں بازیافت (انحطاط کے عمل کو کم سے کم کرنا)، بحالی (تباہ شدہ ماحولیاتی نظام کو دوبارہ بہتر شکل میں لانا)، افزائش(گھاس لگانا، جھاڑیوں اور زوال پذیرجگہوں پر جڑی بوٹیوں کو اُگانا)اور ماحولیاتی انجینئرنگ (ماحول دوست طریقے استعمال کرتے ہوئے ماحولیاتی نظام کی دوبارہ تعمیر)شامل ہیں۔

 

بین الحکومتی سائنس پالیسی پلیٹ فارم برائے بایوڈائیورسٹی اینڈ ایکو سسٹم سروسز (IPBES) کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق تقریباََ 10 لاکھ پودوں اور جانوروں کی انواع کو معدومیت کا سامنا ہے۔ اس معدومیت کے نتیجے میں حیاتیاتی تنوع میں ہونے والے نقصانات میں اضافہ ہوسکتا ہے جس سے متعدی بیماریوں اور وائرس کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوتا ہے۔ آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈویلپمنٹ (OECD) کی 2019 کی ایک رپورٹ کے مطابق” 2010 سے 2015 کے درمیان قدرتی جنگلات میں سالانہ 6.5 ملین ہیکٹر رقبہ (مجموعی طور پر برطانیہ سے بڑا علاقہ) تک کمی جبکہ 1970 سے 2015 تک قدرتی آبی علاقوں میں 35 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔”

 

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ” 30 فیصد سے زائد کورل کو بلیچنگ سے خطرہ ہے اور 1970 کے بعد سے ریڑھ کی ہڈی والے60 فیصد جاندار ختم ہو چکے ہیں”۔ ان اہم تبدیلیوں کی وجوہات میں زمینی استعمال سے اس کی ساخت میں تبدیلی، قدرتی وسائل بشمول پودوں اور جانوروں کا زیادہ استحصال، آلودگی، نامناسب انواع کی افزائش (مقامی پرجاتیوں کے ساتھ کراس بریڈنگ اور بیماریوں کے پھیلاؤ سے حیاتیاتی تنوع کو خطرہ) اور آب و ہوا میں تبدیلی کارفرما ہیں۔ OECD کے ایک اندازے کے مطابق،  ایک سال میں حیاتیاتی تنوع کے فوائد 125تا140 ٹریلین امریکی ڈالر ہیں، جو عالمی جی ڈی پی کے حجم کے ڈیڑھ گنا سے بھی زیادہ ہیں۔ تاہم، ایکو سسٹم کے مستقل زوال کے باعث فطرت کی انسانی  فلاح و بہبود میں کردار ادا کرنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے۔

 

رواں سال کے یوم ماحولیات پر، پاکستان نے اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (UNEP) کی شراکت سے عالمی یوم ماحولیات 2021 کی میزبانی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ رواں سال کے عالمی یوم ماحولیات کے موقع پر اقوام متحدہ کی ماحولیاتی نظام کی بحالی کی دہائی 2021 – 2030 کا باضابطہ آغاز ہوگا۔ وزیراعظم عمران خان کی زیرِقیادت، حکومتِ پاکستان ملک میں جنگلات کی توسیع اور بحالی کے لیے5 سال کے عرصہ میں 10 بلین درخت کاشت کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس مہم میں مینگرووز اور جنگلات کی بحالی کے ساتھ ساتھ شہری علاقوں میں شجرکاری بھی شامل ہے جس میں اسکول، کالج، عوامی پارکس اور گرین بیلٹس شامل ہیں۔ پاکستان نے ماحولیاتی تبدیلیوں کے قدرتی حل کی نشونما، جنگلات کی کٹائی سے بچاؤ اور حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے لیے ماحولیاتی نظام کی بحالی فنڈ کا آغاز کیا ہے۔ حال ہی میں، وزیراعظم پاکستان نے 5500  ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کے لیے ملک بھر میں 15 ماڈل پروٹیکٹڈ علاقوں پر مشتمل 7300 مربع کلومیٹر زمینی علاقے کے تحفظ کے لیے پروٹیکٹڈ ایریا انیشیٹو کا آغاز کیا ہے۔ عالمی یوم ِماحولیات کے میزبان کی حیثیت سے پاکستان ماحولیاتی مسائل کو اجاگر کرے گا اور عالمی کوششوں میں اپنے اقدامات اور کردار کو پیش کرے گا۔

 

امید اس امکان پر قائم ہے کہ ہم قدرت کے ساتھ اپنے تعلق کی تشکیل نو اور ماحولیاتی انفراسٹرکچر کو تبدیل کرکے ماحولیاتی نظام کے بدلتے رجحانات کوپلٹ سکتے ہیں۔ اس مسئلے کی اہمیت کے پیش نظر پاک بحریہ ماحولیاتی نظام کے انحطاط کو روکنے اور ملکی مستقبل کے لیے قدرت کے تحفظ میں اپنی کوششیں تیز کرکے مزیدسنگِ میل عبور کر رہی ہے۔ پاکستان بحریہ ہر سال عالمی یومِ ماحولیات کے موقع پرملک میں ماحولیات کی اہمیت کو اُجاگر کرنے کے لیے متعدد سرگرمیوں کا اہتمام کرتی ہے۔ ان سرگرمیوں میں عوامی آگاہی کو فروغ دینے کے لیے لیکچرز اور سیمینارز کا انعقاد، ہاربرز اور ساحلی پٹیوں میں صفائی مہم، ماحولیاتی آگاہی واک، سوشل میڈیا مہم اور مختلف عوامی مقامات پر ماحولیاتی تحفظ سے متعلق بینرز آویزاں کرنا شامل ہے۔ وزیراعظم کے اقدام ’گرین پاکستان‘ کے تحت پاکستان بحریہ نے ماحولیات کے تحفظ اور بحالی کے لئے درختوں اور مینگروز کی شجرکاری مہم سمیت  بیشتر اقدامات بھی شروع کیے ہیں۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔