آئینی عدالت کا مقصد کسی کو فکس کرنا نہیں، جسٹس فائز بیٹھیں یا منصور، مسئلہ نہیں، بلاول
کوئٹہ: چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ آئینی عدالت میں جسٹس فائز بیٹھیں یا جسٹس منصور، ہمیں کوئی مسئلہ نہیں۔
چیئرمین پی پی بلاول بھٹو زرداری کا بلوچستان ہائی کورٹ بار سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور جسٹس منصور علی شاہ میرے لیے سب سے محترم ہیں۔ مجھے کوئی مسئلہ نہیں، ان دونوں ججز میں کوئی بھی آ کر آئینی عدالت میں بیٹھے۔
بلاول نے کہا کہ بلوچستان کے وکلا نے ہمیشہ آمریت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔ صوبے کے عوام کو کچھ عرصے سے دہشت گردی کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری نسلوں نے جمہوریت کی خاطر اپنی جانیں قربان کی ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ آمر کے بنائے گئے کالے قوانین کو ختم کرنا ضروری ہے۔ ہمارے خاندان کا سفر کٹھ پتلی سے شروع نہیں ہوتا۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری، جنرل کیانی اور جنرل پاشا کے درمیان مک مکا ہوا کہ اگر چارٹر آف ڈیموکریسی نافذ ہوگا اور اگر 1973 کا آئین اصل حالت میں بحال کیا گیا تو اسٹیٹس کو کا کیا بنے گا؟ جمہوریت پر ہمارے کنٹرول کا کیا ہوگا؟
انہوں نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ آج کے حالات بہت اچھے نہیں، لیکن حالات تو تب بھی بہت برے تھے جب ایک ایسا فرعون بیٹھا تھا جس کے خلاف کوئی لب کشائی نہیں کرسکتا تھا۔ شہید بے نظیر بھٹو کی سیاسی جدوجہد کا مقصد آئین کی بحالی ہی تھا۔ ان کا آئین کی بحالی کا سفر اور جدوجہد 30 برس پر محیط ہے۔ ہم نے آئین کو بحال کیا۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی، ہماری اور دوسری پارٹیوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ آپ ہی بتائیے کہ توہین عدالت کا مطلب کیا یہ ہے کہ اگر کوئی کسی جج کے خلاف کچھ بولے تو آپ کو زندگی بھر کے لیے سزا ملے؟۔ کیا یہ اظہار رائے کی آزادی ہے؟۔ کیا اظہار خیال کی آزادی یہ ہے کہ آپ کوئی فیصلہ دے دیں، آپ وزیراعظم کو نکال دیں، آپ اٹھارہویں اور انیسویں ترمیم میں تبدیلی کریں اور ہم چوں تک نہ کرسکیں؟۔
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں عدالتی جنگ سے میرا کوئی تعلق نہیں، اب ریاست باپ کی طرح بن گئی ہے، اس میں کردار افتخار چوہدری کا ہے، افتخار چوہدری جیسے مائنڈ سیٹ نے عدلیہ کو خراب کیا، آپ چاہتے ہیں کہ فیصلے ہوتے رہیں اور ہم شکایت بھی نہ کریں؟
بلاول بھٹو زرداری نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ ہم صرف آئینی عدالت بنانے کا مطالبہ نہیں کررہے، بلکہ ہم عدالتی اصلاحات اور ججز کے تقرر کے طریقہ کار میں بھی بہتری چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس کی ابتدائی تقریر کو دیکھ لیں، وہ سب کہتے ہیں کہ ہم اپنے قوانین تبدیل کریں گے آپ کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ میرٹ کے فیصلوں کا حال دیکھ لیں، لاہور ہائی کورٹ میں قریباً 24 اور سندھ میں 13 اسامیاں خالی پڑی ہیں لیکن معزز جج صاحبان آپس میں بات نہیں کرتے۔ کیسز کی تعداد زیادہ ہے اور ہر کچھ عرصے کے بعد نیا سیاسی مسئلہ سامنے آ جاتا ہے، جس سے پوری عدلیہ اور وکلا کی توجہ دوسری جانب چلی جاتی ہے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ آئینی عدالت کے قیام سے ناصرف عام سائل کو فوری اور جلدی انصاف مہیا ہوگا بلکہ موجودہ ججز کی بھی پوری توجہ آئینی معاملات کو دیکھنے پر رہے گی اور اگر ایسا نہیں ہوسکا تو پھر بار ایسوسی ایشن میں موجود لوگ ان کا احتساب کریں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایسا نظام بنانا چاہتے ہیں جس میں عدالتیں ایک رات میں نہ سہی مگر کچھ وقت بعد تحفظ فراہم کرسکیں۔ یہ محض ایک چیف جسٹس کے تقرر سے نہیں بلکہ اداروں کو مضبوط کرنے سے ممکن ہوگا۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ہمیں مقدس گائے کا تصور ختم کرنا ہوگا۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر آئینی عدالت قائم کرنا ہوگی۔ فوجی عدالتوں کا تصور اس لیے بار بار سامنے آتا ہے کیوں کہ کہا جاتا ہے کہ عدالتی نظام دہشت گردوں کو سزا نہیں دے سکتا اور جب ججز سے پوچھا جاتا ہے تو وہ جواب دیتے ہیں کہ وکلا اور پراسیکیوشن ٹھیک نہیں۔
انہوں نے کہا کہ آئینی عدالت کے قیام مقصد کسی جج کو فکس کرنا نہیں بلکہ یہ بنیادی ضرورت ہے اور میں اس کے لیے کوشش کرتا رہوں گا۔