اسلام آباد میں بلوچستان سے متعلق دو دھرنے، عالمی میڈیا کا دہرا معیار
دانیال جیلانی (وائس آف سندھ)
دوغلے رویے دُنیا میں مضبوط ہوتے جارہے ہیں۔ ظالم کو مظلوم ٹھہرایا جارہا اور مظلوموں کو ظالموں کی فہرست میں شمار کیا جارہا ہے۔ آج کل جھوٹ کا بول بالا اور سچ بولنے والے کا منہ کالا ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ پروپیگنڈا باز اپنی من گھڑت باتوں سے پذیرائی پاتے ہیں جب کہ سچ کو کسی گنتی میں ہی شمار نہیں کیا جاتا۔ یہاں ملک اور اہم اداروں کے خلاف جھوٹ پر مبنی بیانیے کو عالمی میڈیا بھرپور کوریج دیتا ہے جب کہ بے گناہوں پر کیے ظلم و ستم، قتل عام کی دُہائی دینے والوں پر توجہ دینے کی زحمت بھی نہیں کی جاتی۔
ایسی ہی صورت حال آج کل اسلام آباد میں دیے جانے والے دو الگ الگ دھرنوں کے حوالے سے نظر آتی ہے۔ ایک طرف بیرونی فنڈنگ پر چلنے والا ڈرامہ ہے، یعنی ثابت شدہ دہشت گرد بالاچ بلوچ کے مقابلے میں مارے جانے کے خلاف اور مسنگ پرسنز کی بازیابی کے لیے مارنگ بلوچ کی قیادت میں احتجاج جاری ہے تو دوسری جانب بلوچستان کے نہتے، معصوم اور بے گناہ غریب لوگوں کے قتل عام کے خلاف بلوچستان شہدا فورم کے تحت دیا جانے والا دھرنا ہے۔ ان دھرنوں نے انٹرنیشنل میڈیا کے دہرے معیار کو کھل کر عیاں کردیا ہے۔ مارنگ بلوچ کے ملک و فوج مخالف پروپیگنڈے پر مبنی دھرنے کو عالمی میڈیا بھرپور کوریج دے رہا ہے، اسے خوب ہائی لائٹ کیا جارہا اور پاکستان کی جگ ہنسائی کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیا جارہا، شاید اس معاملے پر عالمی میڈیا کے پیٹ میں مروڑ اس لیے زیادہ اُٹھ رہے ہیں کیونکہ اس کے پیچھے پاکستان دشمن قوتوں کا ہاتھ ہے، جو وطن عزیز کو نقصان پہنچانے کی کوششوں میں مگن رہتی ہیں اور اس کے لیے اپنے زرخرید غلاموں کی بھرپور خدمات حاصل کرتی ہیں۔ کسی کا لاپتا ہونا واقعی قابل مذمت ہے۔ کسی گھرانے کا ایک فرد غائب ہوجائے تو اُس سے وہ پورا خاندان بُری طرح متاثر ہوتا ہے، لیکن بلوچستان کے مسنگ پرسنز کے معاملے میں درست اعداد و شمار کا فقدان ہے۔ لاپتا افراد کی تعداد کو اصل سے کئی گنا بڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ مفروضوں پر مشتمل اس معاملے کو سالہا سال سے خصوصی ہائپ دے کر ملک کے خلاف پروپیگنڈوں کو پروان چڑھایا جاتا رہا ہے۔ حالانکہ کسی بھی بات کے مستند ہونے کے لیے درست حقائق ضروری ہوتے ہیں۔ دشمن قوتوں کے زرخرید غلام جو دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث پائے گئے، دشمنوں کے جھانسے میں آکر پاکستان اور اداروں کے خلاف ہتھیار اُٹھائے، بے گناہ لوگوں کو بڑی تعداد میں قتل کیا، صوبے میں دہشت گردی کو بڑھاوا دینے کی وجہ بنے، ایسے عناصر کسی طور محب وطن نہیں ہوسکتے اور ان کی حمایت میں ڈاکٹر مارنگ بلوچ کی قیادت میں دیا جانے والا دھرنا بھی ملک و قوم کے مفاد میں ہرگز نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ یہ ایک سازش ہے، جس کا توڑ ناگزیر ہے۔
دوسری جانب نوجوان سیاست دان جمال رئیسانی کی قیادت میں بلوچستان شہدا فورم کا دیا جانے والا دھرنا ہے، جس کی کوریج کے معاملے میں عالمی میڈیا اپنے پیشہ ورانہ فرائض کو بھول چکا ہے۔ دوغلا معیار اپنایا جارہا ہے۔ ملک مخالف عناصر کی جانب سے میڈیا کو بلوچستان شہداء فورم کے دھرنے کی کوریج تک سے روکا جارہا ہے۔ حالانکہ یہ خالص بلوچستان کے مظلوم عوام کے حق میں دیا جانے والا دھرنا ہے۔ اُن کو دہشت گردوں کے شر سے بچانے کے لیے کیا جانے والا احتجاج ہے۔ یہ اُن معصوم شہریوں کے لیے دھرنا ہے، جنہیں ناکردہ جرم کی سزا کے طور پر موت کی آغوش میں پہنچادیا جاتا ہے، جنہیں دشمنوں کے ٹکڑوں پر پلنے والے دہشت گرد جینے کے حق سے محروم کرنے کے لیے دندناتے رہتے ہیں۔ ریاستی رٹ کو چیلنج کرتے رہتے ہیں۔ عالمی میڈیا کی جانب سے بلوچستان شہداء فورم کے دھرنے کو نظرانداز کرنا صحافتی بددیانتی کی بدترین مثال ہے۔ بین الاقوامی میڈیا کو اس تفریق کا حساب دینا ہوگا۔ صحافتی اصولوں کی دھجیاں اُڑاکر کون سے مفاد حاصل کیے جارہے ہیں۔ یہ سب عیاں ہورہا ہے۔ مذکورہ بالا حقائق کے تناظر میں قوم خود فیصلہ کرسکتی ہے کہ کون سا دھرنا حقیقی مسائل پر مشتمل ہے اور کون سا احتجاج مفروضوں پر مبنی ملک دشمن عناصر کا منفی پروپیگنڈا۔۔۔