عدالت عظمیٰ کا حکم، آڈیو لیکس کمیشن نے کام روک دیا
اسلام آباد: عدالت عظمیٰ کی جانب سے کالعدم قرار دیے گئے آڈیو لیکس تحقیقاتی کمیشن کا اجلاس ہوا، جس میں کمیشن کے سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدالت عظمیٰ کے حکم پر کمیشن کا کام روک دیا۔
آڈیو لیکس تحقیقاتی کمیشن کی سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کی، جس میں اٹارنی جنرل منصور عثمان پیش ہوئے۔ سماعت کے آغاز پر کمیشن کے سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ نے کمیشن سے متعلق کوئی حکم نامہ جاری کیا ہے، ہمیں اس حکم نامے کی کاپی فراہم کریں۔ اٹارنی جنرل نے کاپی عدالت کو فراہم کردی۔
کمیشن نے اٹارنی جنرل کو کل کا عدالتی حکم پڑھنے کی ہدایت کی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب کیا آپ بھی کل سپریم کورٹ میں موجود تھے؟ ، اٹارنی جنرل نے ہاں میں جواب دیا، جس پر جسٹس فائز نے استفسار کیا کہ کیا آپ کو عدالت کی طرف سے نوٹس جاری کیا گیا تھا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مجھے ٹیلی فون پر عدالت پیش ہونے کا کہا گیا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ قواعد کے مطابق فریقین کو پیشگی نوٹسز جاری کرنا ہوتے ہیں۔ کمیشن کو کسی بھی درخواست گزار نے نوٹس نہیں بھیجا۔ سپریم کورٹ کے رولز پر عمل درآمد لازم ہے۔ نوٹس کے حوالے سے بیان حلفی بھی عدالت میں دیا جاتا ہے۔ درخواست گزاروں میں سے کوئی بھی آج کمیشن کے سامنے پیش نہیں ہوا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ باہر پریس کانفرنس کی جاتی ہے لیکن ہمارے سامنے پیش کوئی نہیں ہوا۔ نہ عابد زبیری آئے نہ ان کے وکیل شعیب شاہین نے پیش ہونے کی زحمت کی۔ اٹارنی جنرل صاحب، کیا آپ نے عدالت کو آگاہ نہیں کیا کہ 209 کی کارروائی کمیشن نہیں کررہا؟ عدالت کو کل ہمارے حکم کے بارے میں آگاہ کیا جانا چاہیے تھا۔
اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے جسٹس فائز نے کہا کہ سرپرائز ہوا ہوں آپ نے کل ان نکات کو رد نہیں کیا۔ شعیب شاہین صاحب نے میڈیا پر تقریریں کر دیں لیکن یہاں آنے کی زحمت نہیں کی۔ پرائیویسی ہمیشہ گھر کی ہوتی ہے۔ کسی کے گھر میں جھانکا نہیں جاسکتا۔ باہر سڑکوں پر جو سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہیں، کیا یہ بھی پرائیویسی کے خلاف ہیں؟۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کل کے تحریری حکم نامے میں میرے کیس کا ذکر کیا۔ میرے کیس کے حقائق یکسر مختلف تھے۔ میری اہلیہ نے جائیدادوں کی ملکیت سے انکار نہیں کیا تھا۔ میری اہلیہ کا کیس یہ تھا جو شخص ہمارے خلاف سپریم کورٹ میں کھڑا ہے، اسے کسی نے کھڑا کیا ہے۔ یہ مناسب بات ہے کم از کم جسٹس منصور علی شاہ کا فیصلہ پورا تو پڑھنا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دوسروں کی عزت ہے تو ہماری بھی عزت ہونی چاہیے۔ زیادہ نہیں کم از کم تھوڑی بہت تو ہماری عزت ہونی چاہیے۔ ایک گواہ خواجہ طارق رحیم نے ہمیں ای میل کی۔ انہوں نے ای میل میں لکھا جب آپ خواتین کے بیانات ریکارڈ کرنے لاہور جائیں گے میں وہیں آجاؤں گا۔ خواجہ طارق رحیم نے کہا طبی مسائل کے سبب اسلام آباد میں پیش نہیں ہوسکتا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ حکومت نے مجھے ایک ٹاسک دیا اس لیے ہم بیٹھے۔ ججز کا حلف پڑھیں، ہم آئین و قانون کے تابع ہیں۔
کمیشن کا اٹارنی جنرل کو قاضی فائز عیسیٰ کیس کا فیصلہ پڑھنے کی ہدایت کی، جس کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ابھی وہ اسٹیج ہی نہیں آئی تھی نہ ہم وہ کررہے تھے۔ ایک گواہ اس وقت موجود ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عبدالقیوم صدیقی کو روسٹرم پر بلا لیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید ریمارکس دیے کہ ہمیں کئی بار بہت تکلیف دہ قسم کے ٹاسک ملتے ہیں۔ ہم وہ ٹاسک انجوائے نہیں کر رہے ہوتے مگر حلف کے تحت کرنے کے پابند ہیں۔ حلف کے تحت اس کی اجازت نہ ہوتی تو معذرت کر کے چلا گیا ہوتا۔ ہمیں کیا پڑی تھی، ہمیں اضافی کام کا کچھ نہیں ملتا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سانحہ کوئٹہ کا ذکر کرتے ہوئے جذباتی ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس درد ناک واقعے جیسی تحقیقات کرنا پڑتی ہیں۔
جسٹس فائز نے کہا کہ اب شام کو ٹاک شوز میں کہا جائے گا کہ ہم آئین کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔ ٹی وی پر ہمیں قانون سکھانے بیٹھ جاتے ہیں۔ یہاں آکر بتاتے نہیں کہ اسٹے ہوگیا ہے۔
بعدازاں سپریم کورٹ کی جانب سے کالعدم قرار دیے گئے 3 رکنی کمیشن نے کام روک دیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل صاحب ہم معذرت خواہ ہیں۔ سپریم کورٹ کا جوڈیشل آرڈر ہے، اس لیے مزید کام جاری نہیں رکھ سکتے۔ کمیشن نے اپنا فیصلہ لکھوانا شروع کردیا۔