تاریخ فلسطین (از: ڈاکٹر محسن محمد صالح)

تبصرہ نگار: سیدہ ثناء ظفر

مصنف کا تعارف:
ڈاکٹر محسن محمد صالح 1960 میں انبتا میں پیدا ہوئے، جو فلسطین کے ایک گاؤں کا نام ہے۔ آپ 2004- 1994 ملائیشیا کی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں جدید اور عصری تاریخ کے پروفیسر رہے، آپ فلسطین کی سیاسی حقیقت مقبوضہ بیت المقدس کے معاملات اور فلسطین کی اسلامی تاریخ میں خصوصی دلچسپی رکھتے تھے، آپ پہلے ایسے مسلم اسکالر ہیں جنہوں نے پہلا بیت المقدس کا ایوارڈ حاصل کیا۔ آپ فی الحال بیورٹ میں 2004 سے الزیتون کے سینٹر فار اسٹڈیز اینڈ کنسلٹیشن ڈائریکٹر کے طور پر کام کررہے ہیں۔ آپ 1993 سے لے کر 1994 تک عمان اردن سینٹر فار مڈل ایسٹرن اسٹڈیز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر تھے، آپ کی بہت ساری تصانیف ہیں جو فلسطین کی تاریخ سے متعلق ہیں، جن میں سے چند بیان کرتی ہوں
کتاب کا مختصر تعارف:
کتاب کا نام تاریخ فلسطین ہے، جس کے مصنف کا نام ڈاکٹر محسن محمد صالح ہے اور اس کتاب کے مترجم فیض احمد شہابی ہیں، بااہتمام ادارہ معارف اسلامی اور اشاعت تاریخ جون 2008 ہے اور اس کے ساتھ یہ کتاب 352 صفات پر مشتمل ہے اور اس کتاب کی کل قیمت 180 روپے ہے۔
وجہ انتخاب:
بچپن سے ہی میں سرخیوں میں فلسطین کا تنازع سنتی آئی ہوں اور اس طرح کی نسل کشی جو ابھی تک فلسطین میں ہوتی آرہی ہے، وہ کبھی بھی میری سوچوں کا تسلسل توڑ نہ سکی، میں یہ جاننا چاہتی تھی کہ یہودی کیا واقعی اس سرزمین پر شریعت کے لحاظ سے حق رکھتے ہیں یا ان کا یہ صرف غاصبانہ قبضہ ہے۔
کتاب کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ:
ارض فلسطین:
ارض فلسطین قبلہ اول کی وجہ سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے مقدس ہے اور ناصرف مسلمانوں کے لیے بلکہ یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے ایک مقدس مقام کی حیثیت رکھتا ہے، اس کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ قبلہ اول کے علاوہ بہت سے انبیاء کرام کی قبور اور آثار یہاں پائے جاتے ہیں اور یہی نہیں بلکہ صحابہ کرام کی کثیر تعداد یہاں آسودۂ خاک ہے۔
ڈاکٹر محسن محمد صالح نے مسئلہ فلسطین پر بہت اچھی دستاویزات پیش کی ہیں، کتاب دراصل عربی میں لکھی گئی تھی، لیکن مترجم نے اس کتاب کا ترجمہ بہت ہی خوبصورت اردو میں کیا ہے، کہیں کہیں اردو کے سادہ لفظ کا استعمال کیا گیا ہے اور کہیں سلیس اردو استعمال کی گئی ہے، لیکن داد دینے والی بات تو یہ ہے کہ کہیں بھی لفظوں میں تنازع نہیں پایا جاتا، اس کتاب میں ناصرف فلسطین کے تاریخی پس منظر کو سامنے رکھا گیا ہے، بلکہ اس کتاب کے ترجمے سے ہمارا اردودان طبقہ ناصرف تاریخی پس منظر سے روشناس ہوگا، بلکہ موجودہ صورت حال سے بھی باخبر ہوجائے گا۔
صفحہ نمبر 13 پر مصنف ماضی کے مسلمانوں کی بے شمار صفات کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اسلامی اخوت ایک ایسا سایہ دار شجر ثابت ہوئی، جس نے بلاامتیاز تمام مسلم اقوام، قبیلوں اور نسلوں کو ایک جگہ جمع کردیا، اگر کوئی ایک مسلمان حالات کے ہاتھوں مجبور ہوتا تھا تو دوسرا مسلمان اسے پناہ دیتا تھا، یہ وہ وقت تھا جب اسلام کی پکار پر تمام مسلمان دور پڑتے تھے، مسلمانوں نے رومنوں پر بھی برتری حاصل کی، جو آٹھ صدیوں سے اس خطے پر حکمرانی کررہے تھے، مسلمان ہر طرح کے خطرات کا مقابلہ کرنا جانتے تھے، مسلمانوں نے صلیبیوں کا بھی سر کچلا جو (1094-1291) سے ان پر حملہ آور تھے اور یہاں تک کہ تاتاریوں کو بھی شکست دی، جو بعد میں مسلمانوں کے حسن سلوک سے مسلمان ہوگئے۔
اس کتاب میں مسئلہ فلسطین کے اہم پہلوؤں کی تشریح کرتے ہوئے اس کے سیاسی، تاریخی اور ثقافتی حقائق کو سامنے رکھا ہے، یہ کتاب ایسے حقائق کا ذخیرہ ہے جس میں مسئلہ فلسطین کے سارے پہلو کھل کر سامنے آئے۔
فلسطین نام کی تحقیق:
یہ نام ان قبائل سے منسوب ہے، جو 12ویں صدی ق م میں بحیرۂ روم کے جنوبی یونانی جزائر سے نقل مکانی کرکے یہاں آئے، کیونکہ یہ باشندے سمندر کے راستے سے آئے تھے، اس لیے ان کا نام سمندر سے آئے ہوئے لوگ (people of the sea) پڑگیا، مصر کے قدیم مخطوطات میں انہیں پی ایل ایس ٹی کہا گیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ”ن” کا اضافہ ان کی اجتماعی حیثیت کو اجاگر کرنے کے لیے بعد میں وضع کیا گیا۔
یہ کتاب مسئلہ فلسطین کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے لیے 7 ابواب پر مشتمل ہے، اس میں فلسطین اور فلسطینی، صہیونیت، صہیونی طرز عمل، اسرائیل کی فوجی حیثیت، فلسطینیوں کی جدوجہد اور امن کے منصوبے جیسے اہم موضوعات شامل ہیں، جو کسی بھی پڑھنے والے کو تاریخ فلسطین سے روشناس کرتے ہیں، میرے مطابق اگر کتاب کو طلباء کے نصاب میں شامل کردیا جائے تو یہ بہت اچھا ہوگا، کیوں کہ اس میں جتنی بھی معلومات ہے، اسے سادہ علمی انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
صفحہ نمبر 76 پر مصنف کچھ کھدائیوں کا ذکر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جو صہیونیوں کے بارے میں ہے، وہ اپنی قدیم نشانی تلاش کرنے کے لیے مسجد اقصیٰ کے نیچے کھدائی میں مصروف ہیں، یہودی القدس پر حملے کے پانچویں دن ہی کھدائی میں مصروف ہوگئے تھے۔ ماہرین کے مطابق یہ اب اتنی کھدائی کرچکے ہیں جس نے مسجد اقصیٰ کی بنیادوں کو کھوکھلا کردیا ہے، ان کے مطابق مسجد اقصیٰ کبھی بھی شہید ہوسکتی ہے۔
صفحہ نمبر 108 سے لے کر 126 تک کے واقعات کتاب میں فلسطینیوں کے قتل کے متعلق کثیر تعداد میں موجود ہیں جو دل دہلا دینے والے اور آنکھیں اشک بار کردینے والے ہیں، مصنف نے ان صفحات پر بڑی مہارت کے ساتھ ان تمام واقعات کی تصویر کشی کی ہے، جو 31 دسمبر 1948 سے لے کر 25 فروری 1994 تک پیش آئے۔
صفحہ نمبر 185 پر ہمیں ایک بہت ہی اہم معلومات ملتی ہے کہ یہودی کتنے عرصے سے ذرائع ابلاغ کے اداروں میں براجمان ہیں، ہم دیکھتے ہیں کہ مشہور نیوز چینلز اے۔ بی ۔ سی، این ۔ بی ۔ سی اور سی۔ بی ۔ایس میں یہودی سرمایہ کاری کررہے ہیں، اسی کے ساتھ مشہور اخبارات نیویارک ٹائمز، ڈیلی نیوز، وال اسٹریٹ جرنل اور واشنگٹن پوسٹ کے مالک بھی ہیں اور یہی نہیں بلکہ وہ ہالی وُڈ کے مرکز پر بھی چھائے ہوئے ہیں۔
کتاب میں ہر بات بہت ہی واضح انداز میں تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہے، لیکن اگر اس کا تنقیدی جائزہ لیں تو کچھ غلطیاں نظر آتی ہیں جیسے:
1۔ کافی سارے مقامات پر صفحات کو بلاضرورت طول دیا گیا ہے، میرے علم کے مطابق کوئی بھی بات ایک ہی دفعہ میں پوری بتائی جاسکتی تھی، لیکن مصنف نے مختلف مقامات پر باتوں کو بہت بار دہرایا ہے، جس سے صفحات کی تعداد بڑھ گئی۔
2- صفحہ نمبر 181 پر مصنف قرآن مجید میں موجود ایک پیش گوئی کے بارے میں ذکر کرتے ہوئے نظر آئے کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ بنی اسرائیل بہت مضبوط ہوں گے اور وہ ارض مقدس پر قبضہ کریں گے، لیکن جلد ہی مسلمان ان پر قابو پاکر انہیں تباہ کردیں گے۔ پیش گوئی کا پہلا حصہ مکمل ہوگیا، لیکن دوسرے حصے کی تکمیل کا انتظار ہے، انہوں نے قرآن مجید میں موجود جس پیش گوئی کا ذکر کیا، اس کا حوالہ انہوں نے قرآن پاک سے نہیں دیا۔ اسی طرح مصنف نے شروعات میں یہ فرمایا کہ انہوں نے کتاب تحریر کرنے کے لیے کافی ساری کتابوں کو کھنگالا، لیکن ان کتابوں کا حوالہ اس کتاب میں موجود نہیں۔
3- جو بہت بڑی کمی میں اس کتاب میں سمجھتی ہوں، وہ یہ ہے کہ مسجد اقصیٰ کو یہ لوگ یعنی کہ یہودی کیوں شہید کرنا چاہتے ہیں، یہ تو بتایا ہے لیکن اگر اس کے اوپر ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں تو اس کی دوسری ٹھوس وجہ کیا ہے؟ ہیکل سلیمانی اور تابوت سکینہ جو میرے مطابق اس کتاب کا اہم موضوع ہونے چاہیے تھے، وہ اس کتاب میں تفصیل کے ساتھ موجود نہیں۔
4- کتاب میں مصنف کا باقاعدہ تعارف موجود نہیں، جس کی وجہ سے مصنف کا تعارف تلاش کرنے میں مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔
حرف آخر:
اس کتاب کے تمام تنقیدی پہلو ایک جگہ لیکن اس کی تمام تر معلومات جو مجھے حاصل ہوئیں، وہ واقعی کمال کی تھیں۔ اس کتاب کو پڑھنے کی تجویز میں ان تمام لوگوں کو پیش کرنا چاہوں گی جو فلسطین کی تاریخ میں خاصی دلچسپی رکھتے ہیں اور غیر جانبدار، حق اور انصاف کے متلاشی ہیں۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔