ریکوڈک معاہدہ۔۔۔ ایک گیم چینجر

معاویہ یاسین نفیس

ریکوڈک بلوچستان کے ضلع چاغی کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے، جو دراصل بلوچی زبان کا لفظ "ریکودق” ہے، جس کے معنی ہیں "ریتیلی پہاڑی”۔۔۔
معدنیات کی دنیا میں یہ علاقہ اپنا ثانی نہیں رکھتا، کہا جاتا ہے کہ چاغی کی سرزمین پر ہونے والے ایٹمی دھماکوں کے بعد سے اس زمین نے اپنے اندر چھپے قیمتی خزانے کو نکال باہر کیا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق یہ علاقہ سونے اور تانبے کے ذخائر کے لحاظ سے دنیا بھر میں پانچویں نمبر پر ہے۔
یہ وہ سرزمین ہے، جس میں چھپے معدنیات کے ذخائر پاکستان بالخصوص صوبہ بلوچستان کے لیے معاشی و سماجی طور پر گیم چینجر کی حیثیت رکھتے ہیں،
1993 سے اس سرزمین سے معدنیات کی تلاش کا بین الاقوامی کان کن کمپنیوں سے معاہدات کا آغاز ہوا تھا، جو بعدازاں کبھی کسی قانونی سقم اور کبھی حکومتوں میں موجود یا حکومتی اثررسوخ رکھنے والے جاگیردار، وڈیروں، سرداروں کے ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھتا رہا۔
نتائج یوں نکلے کہ ایک کان کن کمپنی نے معاہدہ منسوخ کیے جانے کے بعد عالمی ثالثی فورم سے رجوع کیا، جہاں سے پاکستان کو ایک بھاری بھر کم ہرجانہ بطور جرمانہ ادا کرنے کا فیصلہ صادر ہوا۔
اب صورت حال تبدیل ہوچکی ہے اور ایک بار پھر ریکوڈک معاہدہ طے پاگیا ہے، جس پر بلاخوف و تردد کہا جاسکتا ہے کہ بلوچستان اب سیکیورٹی کے ماحول سے نکل کر سرمایہ کاری کے ماحول میں داخل ہورہا ہے۔
یہ ایسا معاہدہ ہے، جس سے حکومت بلوچستان 25 فیصد منافع بغیر کسی سرمایہ کاری کے حاصل کرے گی جب کہ وفاقی حکومت 25 فیصد منافع میں شیئر ہولڈر ہوگی اور سرمائے میں بھی شراکت داری کرے گی۔
اس معاہدے سے بلوچستان کے جاب سیکٹر میں لگ بھگ 8 ہزار ملازمتیں تخلیق ہوں گی۔ مقامی آبادی کی فلاح بہبود کے لیے بھی کام ہوگا۔
مقامی آبادی کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے کی خاطر کمپنی باہر سے اپنے ماہرین کو لائے گی اور وہی اس کی منصوبہ بندی کریں گے۔
صحت، تعلیم اور فوڈ سیکیورٹی، پینے کے صاف پانی کی فراہمی جیسے ترقیاتی پروگرام شروع کیے جائیں گے اور اس منصوبے کی تعمیر کے دوران 4 ہزار اور بعد میں لگ بھگ 4 ہزار افراد کو ملازمت کے مواقع ملیں گے۔
معاہدے کے تحت 100 سال تک جو بھی ریونیو ہوگا، وہ صوبے کے حصے کے مطابق اس کی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوگا اور مجموعی طور پر 8 ارب ڈالر کا سرمایہ آئے گا۔
یہ ملکی تاریخ کا بہت بڑا سرمایہ ہوگا، جس سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کا پاکستان پر اعتماد بڑھنے کے ساتھ اہل پاکستان کو بھی وسیع مفادات حاصل ہوں گے۔
یہ معاہدہ ماضی میں پس ماندہ رہ جانے والے اس صوبے کی ترقی کے نئے دور کے آغاز کا مظہر ہوگا۔
پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو معدنی وسائل سے مالا مال ہیں، لیکن مایوس کن بات کہ ہم آج تک اس قابل نہیں ہوسکے کہ ان وسائل سے بلاواسطہ فوائد سمیٹ سکتے، ہمیں ان وسائل سے استفادے کے لیے دوسروں کا سہارا درکار ہے،
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی بھی قوم تنہا ترقی کے سفر کو آسانی سے پورا نہیں کرسکتی، اس لیے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔
ریکوڈک معاہدہ دراصل وہ سہارا ہے جو ہمارے ترقی کے سفر کو ایندھن مہیا کرے گا، اس معاہدے کی سب سے خوبصورت بات یہ ہے کہ ان معدنی ذخائر سے حاصل ہونے والا زیادہ شیئرز بلوچستان حکومت کے حصے میں آئیں گے، جس سے بلوچستان کی احساس محرومی کے خاتمے کا آغاز ہوگا اور یہ ثابت ہوگا وفاق صوبوں کے وسائل کو صوبوں پر ہی خرچ کرنا چاہتا ہے اور ان ذخائر کو صوبوں اور اس کے عوام کا حق سمجھتے ہوئے صوبوں کی خودکفیل پالیسی کا احترام بھی کرتا ہے،
جو وفاق اور اس کی اکائیوں کے اعتماد کے لیے لازم بھی ہے۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔