عدالت سیاسی معاملات میں تحمل کا مظاہرہ کررہی ہے، چیف جسٹس

اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا ہے کہ لانگ مارچ سیاسی مسئلہ ہے، جس کا سیاسی حل ہوسکتا ہے اور عدالت سیاسی معاملات میں تحمل کا مظاہرہ کررہی ہے۔
عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے عمران خان کے لانگ مارچ کے خلاف سینیٹر کامران مرتضیٰ کی درخواست پر سماعت کی۔
عدالت نے سوال کیا کہ کیا عمران خان کے لانگ مارچ کے لیے جگہ کا تعین کیا گیا ہے؟ انتظامیہ سے پوچھ کر عدالت کو آگاہ کیا جائے۔
عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو آدھے گھنٹے میں انتظامیہ سے پوچھ کر بتانے کا حکم دیا۔
سماعت کے دوبارہ آغاز پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون عدالت میں پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ لانگ مارچ کے حوالے سے انتظامیہ نے کیا کیا ہے؟ اس پر ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ انتظامیہ کو اسلام آباد میں لانگ مارچ کے لیے پی ٹی آئی کا خط ملا، انتظامیہ نے پی ٹی آئی سے تاریخ، وقت اور جگہ کا پوچھا جس کا جواب نہیں دیا گیا، وزیرآباد واقعے سے پہلے پی ٹی آئی نے خونریزی کی باتیں کیں، واقعے کے بعد انتظامیہ نے پی ٹی آئی کو اسلام آباد داخلے کی اجازت دینے سے انکار کیا، اسلام آباد میں جلسے کی اجازت پر کیس اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیرالتوا ہے۔
جسٹس عائشہ نے کہا کہ پی ٹی آئی کا لانگ مارچ تو کافی دنوں سے چل رہا ہے، کیا آپ نے انتظامیہ سے رجوع کیا ہے؟ لانگ مارچ کے معاملے میں جلدی کیا ہے اور انتظامیہ کی غفلت کیا ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ لانگ مارچ سیاسی مسئلہ ہے، جس کا سیاسی حل ہوسکتا ہے، اس قسم کے مسائل میں مداخلت سے عدالت کے لیے عجیب صورت حال پیدا ہوجاتی ہے، آپ نے اپنی درخواست میں ایک آڈیو کا ذکر کیا ہے اور اس آڈیو میں ہتھیار لانے کا ذکر ہے، آڈیو سچ ہے یا غلط لیکن اس سے امن و امان کی صورت حال خراب ہوسکتی ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ احتجاج کا حق لامحدود نہیں، آئینی حدود سے مشروط ہے، اگر واضح طور پر آئینی خلاف ورزی کا خطرہ ہو تو عدلیہ مداخلت کرے گی، ہوسکتا ہے خلاف ورزیوں پر دوسرے فریق کا اپنا مؤقف ہو، سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی پر عدالت کے لیے معاملہ پیچیدہ ہوجاتا ہے، عدالت کے حکم عمل درآمد کے لیے ہوتے ہیں۔
اس دوران جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اب تو موجودہ درخواست غیر مؤثر ہوگئی ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ امن وامان برقرار رکھنے کے لیے عدالت کی مداخلت چاہتے ہیں، اس پر جسٹس اطہر نے کہا کہ کیا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ صورت حال ایگزیکٹو کے بس سے باہر ہوچکی؟
عدالت نے کہا کہ کیا وفاق کو نہیں معلوم کہ اپنی ذمے داری کیسے پوری کرنی ہے؟ سپریم کورٹ انتظامی معاملات میں کیا کرسکتی ہے؟ ریاست طاقتور اور بااختیار ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سمجھ سکتے ہیں کہ آپ موجودہ صورت حال سے پریشان ہیں، ملک میں ہنگامہ نہیں امن وامان چاہتے ہیں، مگر ایسا حکم دینا نہیں چاہتے جو قبل ازوقت ہو اور اس پر پھر عمل درآمد نہ ہو۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔