تمباکو نوشی کی روک تھام کا عالمی دن
انسداد تمباکو نوشی کے عالمی دن کے موقع پر خصوصی تحریر
31 مئی کو ہر سال دنیا بھر میں تمباکو نوشی کی روک تھام کا عالمی دن منایا جاتا ہے، اس سلسلے میں دنیا بھر میں آگہی واکس، سیمینارز اور پریس کانفرنسوں کا انعقاد کیا جاتا ہے، جس کا مقصد عوام کو تمباکو کے استعمال کے نقصانات سے آگہی فراہم کرنا ہوتا ہے، لیکن یہ تمام واکس اور سیمینارز علامتی ہوتے ہیں جن کا انعقاد صرف اس دن کی مناسبت کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جاتا ہے جب کہ اس تمام عمل میں دیرپا و مستقل نتائج صرف حکومتی دلچسپی کی بدولت ہی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت نے اس سال تمباکو نوشی کی روک تھام کے عالمی دن کو "تمباکو کی صنعت کے ماحول پر پڑنے والے نقصان دہ اثرات کو اجاگر کرنے” سے منسوب کیا ہے.
عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق تمباکو کی عالمی وبا ہر سال قریباً 80 لاکھ افراد کی جان لے لیتی ہے، جن میں سے بارہ لاکھ سے زائد افراد وہ ہیں جو سیکنڈ ہینڈ اسموک یعنی سگریٹ نوشی نہ کرنے کے باوجود سگریٹ کے دھویں سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ انسانی صحت پر مضر اثرات کی بات کی جائے تو تمباکو نوشی کینسر، دل کی بیماری، فالج، پھیپھڑوں کی بیماریاں، ذیابیطس اور دائمی رکاوٹ پلمونری بیماری کا سبب بنتی ہے۔
حکومت پاکستان نے مستقبل کی نسلوں کی صحت کی حفاظت کے لیے بیشتر اقدامات کیے ہیں جس میں "پروہیبیشن آف اسموکنگ اینڈ پروٹیکشن آف نان اسموکرز ہیلتھ آرڈیننس 2002” اس کے علاوہ اس قانون کے تسلسل میں کئی ایس آر اوز جاری کیے گئے ہیں، پاکستان مئی 2004 میں عالمی معاہدہ برائے تمباکو نوشی کی روک تھام فریم ورک کنونشن آف ٹوباکو کنٹرول (ایف سی ٹی سی) پر بھی ناصرف دستخط کرچکا ہے بلکہ اسی سال اس معاہدہ کی توثیق بھی کرچکا ہے۔
دوسری جانب وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشنز اینڈ کوآرڈینیشن نے ڈائریکٹر ٹوباکو کنٹرول کے ماتحت جولائی 2020 میں ٹوباکوکنٹرول سیل کی بنیاد رکھی جبکہ اس ٹوباکو کنٹرول سیل کے بیشتر اقدامات کو عالمی سطح خصوصاً عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ناصرف سراہا گیا بلکہ گزشتہ سال پاکستان کو عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ایوارڈسے بھی نوازا گیا۔
یقیناً آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ ہمارے ملک میں قوانین تو موجود ہیں لیکن اصل مسئلہ ان قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کا ہے اور خاص طور پر جب بات کی جائے شہر کراچی کی جہاں دو سال قبل تمباکو نوشی کی روک تھام کے قوانین پر عمل درآمد ایک خواب جیسا لگتا تھا۔
فروری 2020 میں اُس وقت کے کمشنر کراچی نے وزارت قومی صحت توباکو اسموک فری سیٹیز پروجیکٹ کے اشتراک سے شہر کے دو اضلاع جنوبی اور شرقی کو اسموک فری ماڈل بنانے کا اعادہ کیا اور دونوں اضلاع کے ڈپٹی کمشنر دفاتر کو تمباکو نوشی کی روک تھام کے قانون پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے خاطرخواہ اقدامات کرنے اور اس تمام عمل میں وزارت قومی صحت کے پراجیکٹ اسٹاف کے اشتراک سے اسلام آباد کی طرح اپنے اضلاع کو اسموک فری ماڈل اضلاع بنانے کے لیے اقدامات کرنے کی ہدایات جاری کیں۔
گزشتہ دو سال میں ضلعی حکومتوں کی تمباکونوشی کی روک تھام کے قوانین پر عملدرآمد سے متعلق کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو اس وقت کراچی کی سطح پر کمشنر کراچی دفتر میں ٹوباکو کنٹرول ڈیسک، شرقی اور جنوبی دونوں اضلاع میں توباکو کنٹرول سیل، ٹاسک فورس اور حکومتی اداروں پر مشتمل ڈسٹرکٹ امپلی مینٹیشن اینڈ مانیٹرنگ کمیٹی کا قیام عمل میں لایا جاچکا ہے۔
ان تمام حکومتی اقدامات کی بدولت کراچی کے سو سے زائد عوامی مقامات کو اسموک فری قرار دیا جاچکا ہے جب کہ پولیس اور ضلعی انتظامیہ نے قوانین کی خلاف ورزی پر ایکشن لینے کا آغاز بھی رواں ماہ سے کردیا ہے، ان قوانین کی خلاف ورزیوں میں 18 سال سے کم عمر فرد کو سگریٹ کی فروخت، کھلی سگریٹ کی فروخت، تعلیمی اداروں کے 50 میٹر احاطہ میں تمباکو کی اشیاء کی فروخت و دیگر شامل ہیں۔
کراچی کے ضلع شرقی میں ڈپٹی کمشنر اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ٹو کی زیر نگرانی قائم ٹوباکو کنٹرول سیل نے قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے ساتھ نوجوان نسل کو تمباکو نوشی کے مضر اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے تعلیمی اداروں میں آگہی نشست اور صحت افزاء ماحول کو فروغ دینے کے لیے مختلف مقابلوں کا بھی انعقاد کیا ہے، جس میں حال ہی میں کمشنر کراچی آفس اور وزارت قومی صحت کی جانب سے منعقدہ پوسٹر، آرٹ مقابلہ اور صادقین آرٹ گیلری میں ان پوسٹرز و آرٹ کی کامیاب نمائش شامل ہے جس میں ضلع شرقی کے تعلیمی اداروں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، ان تعلیمی اداروں میں سندھ بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن، انڈس یونیورسٹی، علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، محکمہ تعلیم بلدیہ شرقی اور ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفس سیکنڈری و پرائمری بشمول دیگر تعلیمی ادارے سرفہرست رہے۔
یقیناً کراچی جیسے بڑے شہر میں جہاں ضلعی انتظامیہ اور پولیس کئی مسائل سے نبردآزما ہوں، وہاں تمباکونوشی کی روک تھام کے قوانین پر سو فیصد عمل درآمد ممکن نہیں، لیکن ضلعی ڈپٹی کمشنرز کی ذاتی دلچسپی کی بدولت آج کراچی میں تمام ادارے تمباکونوشی کی روک تھام اور اس کے انسانی زندگی و ماحول پر اثر انداز ہونے والے بھیانک نتائج سے بچنے کےلیے متحرک کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں.
نوجوان نسل کو تمباکونوشی کے مضر اثرات اور استعمال سے محفوظ رکھنے کے لیے حکومتی اقدامات کے ساتھ والدین کا کردار بھی انتہائی اہم ہے جن کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھیں اور تمباکونوشی کرنے والے افراد کی صحبت میں اپنے بچوں کو ہر گز نہ بیٹھنے دیں، کیونکہ ایک صحت مند معاشرہ ہی ملک و قوم کی ترقی کا ضامن ہوتا ہے۔