ارشد ندیم اور نیرج چوپڑا

احسن لاکھانی

اولمپکس میں بھارتی ایتھلیٹ نیرج چوپڑا جاویلن تھرو میں جیت گئے اور پاکستانی ایتھلیٹ ارشد ندیم پانچویں نمبر پر آئے۔ یہ پانچواں نمبر ان کا نہیں ہمارا آیا ہے اور وہ پہلی پوزیشن نیرج کی نہیں بھارت کی آئی ہے۔ ارشد ندیم جیسے لوگ بہت کمیاب ہوتے ہیں۔ میں مختصر سا تعارف کرواتا چلوں کہ ارشد ندیم کون ہیں اور کن حالات میں یہ اولمپکس تک پہنچے۔ ارشد ندیم کا تعلق میاں چنوں سے ہے جو کہ پنجاب کا چھوٹا سا شہر ہے۔ وہ اسکول میں تھے تب کرکٹر بننا چاہتے تھے لیکن پھر جاویلین تھرو میں ان کی دلچسپی بڑھی اور یوں ان کا سفر ساتویں کلاس سے شروع ہوا۔ انہوں باقائدہ سے مقابلوں میں حصہ لینا 2015 سے شروع کیا۔ 2016 میں انہیں World Athletics کی طرف سے اسکالر شپ ملی اور یوں انہیں موریشز میں ٹریننگ کرنے کا موقعہ ملا۔ پھر اس کے بعد انہوں نے کئی مقابلوں جیسے ایشئین گیمز، کامن ویلتھ گیمز وغیرہ میں حصہ لیا اور میڈلز جیتے۔

ارشد ندیم

مزے کی بات ہے آلمپکس میں جانے سے پہلے یہ اپنے ہی گھر یا علاقے میں پریکٹس کرتے رہے اور حکومت کی طرف سے انہیں کسی قسم کی سہولیات فراہم نہیں کی گئیں۔ دوسری جانب نیرج چوپڑا جو یورپ میں بہترین ماحول میں ٹریننگ کرتے رہے اور ان کی کوچنگ انٹرنیشنل چیمپئین جرمن ایتھلیٹ Uwe Hohn کرتے رہے۔ انہیں کھانے پینے، رہنے، سے لے کر ہر قسم کی سہولیات میسر تھی۔ بھارت کا ٹارگیٹ پچھلے چار سال سے یہ میڈل تھا اور انہوں نے پچھلے چار سال سے اس میڈل کی تیاری کی۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ نیرج کو ماہانہ تنخواہ دس لاکھ تک دی جاتی ہے۔ ایک طرف بے بس، لاچار، غریب اور اپنی مدد آپ کے تحت کھیلنے والا ارشد ندیم اور دوسری طرف تمام سہولیات کے ساتھ کھیلنے والا نیرج۔ قصور کس کا ہے؟

حکومت نے کبھی بھی کسی کھیل کو اہمیت نہیں دی۔ اس سے پہلے ایک شخص حسین کچھی تھا جو بھارت میں باکسنگ کا ایشیا کپ جیت کر آیا تھا اور بڑی ذلت کی بات ہے کہ اس کے پاس جوتے تک نہیں تھے وہ بغیر جوتوں کے لڑا تھا۔ اس کے ساتھ حکومت اور عوام نے اس قدر ظلم کیا کہ وہ پاکستان ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر چلا گیا اور اب جاپان میں باکسنگ کوچ ہے۔ اگر آپ کو وقت ملے تو حسین شاہ پر بنائی گئی فلم ’شاہ‘ ضرور دیکھیں۔ اس ملک میں ہر چور، لٹیرا، ڈاکو، قاتل، خائن عزت دار اور دولت مند ہے۔

حسین شاہ باکسر

ہر غریب، مجبور، ٹیلینٹڈ ذلیل و خوار ہے۔ ہم خود با حیثیت قوم چوروں اور لٹیروں سے مرعوب ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ تصاویر بنانے کو باعث فخر سمجھتے ہیں۔ ارشد ندیم جیسے اور بھی لوگ ہیں جو صرف اس لیے آگے نہیں آتے کہ سسٹم انہیں سپورٹ نہیں کرتا بلکہ انہیں روند دیتا ہے۔ یقین کریں یہ شکست صرف ارشد ندیم کی شکست نہیں بلکہ پاکستان کی ہے اور وہ جیت صرف نیرج کی نہیں بلکہ پورے بھارت کی ہے۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔