پاکستان افغانستان میں قیام امن کی ضمانت نہیں دے سکتا: وزیر خارجہ
اسلام آباد: پاکستان کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ہم افغانستان میں قیام امن کی ضمانت نہیں دے سکتے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اسلام آباد میں نیوز بریفنگ کے دوران کہا کہ ہم افغان امن عمل میں اہم اسٹیک ہولڈر ہیں، پاکستان افغانستان میں پائیدار امن کا خواہاں ہے، دوحا میں ہونے والے امن معاہدے میں پاکستان کا کردار اہم ہے، 6 اگست کو سیکیورٹی کونسل میں افغانستان سے متعلق بریفنگ ہوئی، لیکن اس اجلاس میں پاکستان کو شرکت کا موقع نہ دیا گیا۔ بھارت اس مسئلے پر سلامتی کونسل کی صدارت کی ذمے داری نبھانے میں ناکام رہا۔ افغانستان سے متعلق بریفنگ کے لیے بھارت سے بطور سیکیورٹی کونسل کے موجودہ صدر رابطہ کیا لیکن بھارت نے مثبت ردعمل نہیں دیا، بھارت کی جانب سے ہماری درخواست کو قبول نہیں کیا گیا، بھارت کو سلامتی کونسل کے صدر کی حیثیت سے ایسا منفی رویہ زیب نہیں دیتا۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ افغانستان میں ہمارے مقاصد امریکا اور عالمی برادری کے مقاصد کے ساتھ مماثل ہیں، افغانستان کے معاملے پر پاکستان، امریکا اور عالمی برادری ایک صفحے پر ہیں، جو وہ چاہتے ہیں ہم بھی وہی چاہتے ہیں، وزیراعظم ہمیشہ سے افغانستان کے سیاسی حل کی بات کرتے رہے ہیں، افغان مسئلے پر دنیا نے وزیراعظم عمران خان کے موقف کی تائید کی، افغانستان میں ہمارا کردار معاونت کا ہے، ضامن کا نہیں، ہم افغانستان میں قیام امن کی ضمانت نہیں دے سکتے وہ افغانوں کو خود دینی ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ بار بار واضح کرچکے کہ افغانستان میں ہمارا کوئی پسندیدہ فریق نہیں ہے، افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ افغانوں کو ہی کرنا ہے، ہم نے اسلام آباد میں افغان رہنماؤں کو مائنس طالبان کانفرنس کی دعوت دی، اس کانفرنس کو افغان صدر اشرف غنی کی درخواست پر ملتوی کیا گیا، میں نے تحریری طور پر افغان وزیر خارجہ کو اسلام آباد کے دورے کی دعوت دی تاکہ ہم اگر کوئی مسائل ہیں تو ان پر بات کر سکیں، دوسروں کی ناکامی کی ذمہ داری پاکستان پر نہ ڈالی جائے،ایک دوسرے پر الزام تراشی کی بجائے پائیدار امن کے لیے آگے بڑھا جائے، سلامتی کونسل اجلاس میں افغان نمائندے نے پاکستان کے خلاف بے بنیاد الزام تراشی کی۔ ہم افغان نمائندے کے پاکستان مخالف بیانات کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان میں لگایا جانے والا پیسہ کہاں استعمال ہوا، ہم افغان فورسز کی ناکامیوں کے ذمے دار نہیں، پاکستان افغانستان کے فوجی قبضہ کا حمایتی نہیں ہے، جب ہم سیاسی حل کی بات کرتے ہیں تو یہ عسکری قبضے کی ضد ہے، پاکستان نے مختلف فورمز پر واضح کہا کہ پاکستان ایک ذمے دارانہ بالترتیب انخلا کی حمایت کرتا ہے، جب آپ افغانستان سے انخلا کررہے ہیں تو وہاں ایک خلا مت چھوڑیں، اس خلا کا براہ راست فائدہ دہشت گرد تنظیمیں اٹھائیں گی۔ پاکستان افغانوں کا خاصے عرصے سے سخی اور مہمان نواز میزبان رہا ہے، پاکستان اپنے وسائل سے افغانوں کی میزبانی کر رہا ہے، عالمی برادری نے پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کے حوالے سے ہماری کوئی مدد نہیں کی، بدقسمتی سے مزید افغانوں کی میزبانی کی صلاحیت ہمارے پاس نہیں۔
انہوں نے کہا کہ سی پیک منصوبہ دنیا کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے، اسے نشانہ بنانے کی کوششیں ہوتی رہتی ہیں، سیرینا ہوٹل واقعہ، داسو، جوہر ٹاؤن اور کوئٹہ حملے اسی کا شاخسانہ ہے لیکن سی پیک منصوبے پر کام جاری رہے گا، داسو واقعے پر پاکستان نے اپنی تحقیقات مکمل کرلی ہیں، ہم اس پر اپنے چینی دوستوں سے مشاورت کررہے ہیں، مشاورت مکمل ہونے پر ہم ان تفصیلات کو بیان کریں گے۔