باپ کا خواب پورا کرنے والی چار بیٹیاں
یہ اچھی بات ہے یا نہیں، لیکن ہم اکثر اپنے پورے نہ ہونے والے خواب اپنی اولاد کے ذریعے پورے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ساندہ لاہور کے مصوّر سہیل جاوید کھوکھر کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ انہیں بچپن میں کرکٹ کھیلنے کا بہت شوق تھا۔ وہ بڑے کرکٹر بننا چاہتے تھے، لیکن ان کے والد نے کہا پڑھائی پر توجہ دو اور کرکٹ کھیلنے سے روک دیا۔
سہیل جاوید نے اپنی حسرت کو اپنی بیٹیوں کو اتھلیٹ بناکر پورا کیا۔ ان کی بیٹیوں سائبل سہیل، مریم سہیل، ٹوئنکل سہیل اور ویرونیکا سہیل نے ان کا خواب پورا کردیا ہے۔ چار بہنوں نے اکٹھے پاور لفٹنگ کے بین الاقوامی مقابلے میں شریک ہوکر اور میڈل جیت کر عالمی ریکارڈ قائم کیا ہے۔ یہ سب کچھ اتنی آسانی سے نہیں ہوا، بلکہ سہیل جاوید کو ایک موقع پر اس کیلئے اپنا مکان تک گروی رکھنا پڑا۔ ٹوینکل گلشن راوی کالج میں میری اہلیہ کی شاگرد رہی. اسے کسی ٹریننگ وغیرہ کیلئے وقت سے پہلے لے جانے کیلئے اس کے والد خود آتے تھے۔ ایک بار کالج آئے تو گفتگو کے دوران کہا، "پاور لفٹنگ جیسے اسپورٹس کیلئے ہاتھی جتنا کھلانا پڑتا ہے، ہماری کلاس کے لوگوں کیلئے بہت مشکل ہے، لیکن میں اس کیلئے اپنا سب کچھ لگادوں گا۔”
سہیل جاوید کھوکھر کا کہنا ہے کہ مسقط میں ایشین بینچ پریس چمپیئن شپ کے لیے ٹوئنکل اور سائبل کو پاکستان کی طرف سے منتخب کرلیا گیا تھا، مگر حکومت کی جانب سے مدد نہ مل سکی۔ میرے پاس اتنی رقم نہیں تھی کہ دونوں بیٹیوں کو بھیج سکتا۔ یہ زندگی کا ایک مشکل مرحلہ تھا۔ بہت سوچنے کے بعد اپنا مکان گروی رکھوایا، مگر اس سے بھی صرف اتنے پیسے مل سکے کہ کسی ایک بیٹی کو بھیج سکتا تھا۔ دل پر پتھر رکھ کر اور سائبل کے آنسوؤں سے نظریں چراتے ہوئے پندرہ سالہ ٹوئنکل کو ساتھ لے کر مسقط پہنچ گیا، جہاں ٹوئنکل نے تاریخ رقم کردی۔
ٹوئنکل سہیل کہتی ہیں، "جب مقابلوں میں شریک ہوئی تو مجھے کچھ پتا نہیں تھا کہ میں کیا کررہی ہوں اور کوچ کیا کہہ رہے ہیں۔ کیا ہورہا ہے۔ مجھے اگر کچھ یاد تھا تو صرف اتنا کہ میرے پاپا ہمیں خالص دودھ کا ملک شیک پلاتے تھے اور خود پانی پیتے تھے۔ میری مما ہم بہن بھائیوں کو بہترین کھانا کھلانے کے بعد بچا کھچا کھاتی تھیں۔ ہار کوئی آپشن نہیں تھا۔ مجھے اپنے ملک اور مما پاپا کے لیے جیتنا تھا، جن کے لیے میں نے سر دھڑ کی بازی لگا کر ناممکن کو ممکن کردیا۔”
سائبل سہیل کا کہنا ہے کہ ’مقابلے میں شریک نہ ہونے کا دکھ تو بہت ہوا تھا لیکن پاپا کے سامنے اس کا اظہار نہیں کرسکتی تھی۔ وہ پہلے ہی دکھی تھے اور مزید دکھی ہوتے۔ مگر جب بہن کی کامیابی کی خبر ملی تو یقین ہو چلا تھا کہ اب ہماری مشکلات زیادہ نہیں تو کچھ کم ضرور ہوں گی۔”
بچیوں کے والد سہیل کھوکھر کا کہنا ہے کہ 2016 میں بھی منتخب ہونے کے باوجود ان کی بیٹیاں منگولیا میں ایشین کلاسک پاور لفٹنگ چمپیئن شپ میں حصہ نہیں لے سکی تھیں۔ اس بات کا بہت دکھ ہے کہ غربت کی وجہ سے بہت ہی قیمتی مواقع گنوائے۔ سائبل سہیل بتاتی ہیں ’ہم لوگ جب دبئی گئے تھے تو وہاں پر ہر ملک کے کھلاڑی بہترین فوڈ سپلیمنٹ خریدتے تھے، لیکن ہم پاکستان میں فود سپلیمنٹ نہیں خرید سکتیں تو دوبئی میں کیا خریدتیں۔ ہمارے ساتھ تو صورتحال یہ تھی کہ کبھی کبھار پاپا کا کام کم ہوتا تو ہمیں گھر سے یونیورسٹی تک پیدل جانا پڑتا تھا اور اس دوران لوگوں کی معنی خیز نظروں کا سامنا بھی کرنا پڑتا۔ رشتہ دار اور محلے دار بھی باتیں بناتے تھے، ہمارا مذاق اڑایا جاتا تھا۔ پھر جب ہم نے کرکے دکھایا اور ٹوئنکل نے پہلا بین الاقوامی اعزاز حاصل کیا تو ہمارے دادا، جنھوں نے ہمارے پاپا کو کھیلنے کی اجازت نہیں دی تھی، وہ ٹوئنکل اور پاپا کو لینے خود ایئرپورٹ گئے تھے۔”
مریم سہیل بتاتی ہیں، "2018 میں جب ہم لوگ دبئی گے تو وہاں پر پہلا مقابلہ میرا تھا۔ آرگنائزر نے کہا کہ شارٹس پہننا ہو گی۔ ہمارے لیے یہ ممکن نہیں تھا۔ ہم پاکستانی ہیں۔ اپنی تہذیب اور تمدن سے کسی بھی صورت میں روگردانی نہیں کرسکتے تھے۔ ہم بہنوں نے شارٹس پہنے سے انکار کردیا اور کہا کہ شارٹس پہنے بغیر مقابلوں میں حصہ بھی لیں گی۔ انڈیا کی کھلاڑیوں سے ہمارا ہمیشہ سخت مقابلہ ہوتا ہے جن کو کئی مرتبہ شکست دے چکی ہیں۔ مگر انڈیا کے دستے نے ہمارے آفیشلز کے ساتھ مل کر ہمارا مقدمہ لڑا۔ جس پر تمام شریک ممالک کے آفیشل بیٹھے۔ قوانین کی کتابیں پھرولی گئیں۔ جس کے بعد ہمیں کہا گیا کہ ہم مکمل سوٹ پہن کر مقابلوں میں شریک ہوسکتی ہیں۔ اب ہم دنیا کے کسی بھی ملک میں مقابلوں میں شریک ہوں گی تو ہمیں شارٹس پہنے کو نہیں کہا جائے گا۔