کورونا بحران، حکومتی پیکیج اور مخیر حضرات سے جڑی امید

حنید لاکھانی

بے شک پاکستان ایک مشکل سے دوچار ہے، مگر اہم بات یہ ہے کہ ہم اس سے مقابلہ کرنے کا عزم کر چکے ہیں۔ اور یہ عزم ہی ہے، جو ہمیں عظیم کامیابیوں سے ہم کنار کرتا ہے۔
ملک بھر میں لاک ڈائون کی صورت حال ہے، عوام گھروں تک محدود ہیں، دیہاڑی دار طبقے کے لیے یہ مشکل گھڑی ہے، مگر حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ حکومت اس مسئلے سے پوری طرح باخبر ہے۔
وزیر اعظم نے ابتدا میں مکمل لاک ڈائون سے اجتناب کیا، تو سبب یہی تھا کہ انھیں غریب عوام کی مشکلات کا ادراک تھا، مگر کورونا ایسی وبا ہے، جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اسی باعث پاکستان میں بھی انتہائی اقدامات کیے گئے۔
جوں ہی ملک لاک ڈائون کی سمت گیا، وزیراعظم کی جانب سے مزدور طبقے کے لیے 200 ارب کے ریلیف پیکیج کی منظوری دے دی گئی، جس کے تحت 70 لاکھ دیہاڑی دار افراد کی ماہانہ بنیادوں پر خبر گیری کی جائے گی۔
نچلے طبقے کو ریلیف دینے کے لیے 150 ارب روپے چار مہینے کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ یوٹیلٹی اسٹور کے لیے 50 ارب روپے مزید مختص کیے جارہے ہیں، 300 یونٹ بجلی استعمال کرنے والے صارفین سے 3 ماہ کی اقساط میں بل وصول کیے جائیں گے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں پندرہ روپے کی کمی کی گئی ہے۔
دوسری جانب پنجاب حکومت نے 50 ارب روپے کا معاشی پیکیج تیار کرلیا ہے۔ دیگر صوبوں کی حکومتیں بھی اپنے اپنے طور پر سرگرم ہیں۔
تنقید برائے تنقید کرنے والے شاید ان اقدامات کو بھی ناکافی قرار دیں، مگر انھیں دو حقائق پیش نظر رکھنے چاہییں۔
پہلا نکتہ: یہ ابتدائی اعلان ہے، وزیر اعظیم کے بقول حکومت مسائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے مزید اقدامات کا ارادہ رکھتی ہے۔
دوسری بات، حکومت کو یومیہ بنیادوں پر کام کرنے والے لگ بھگ ایک کروڑ افراد کی کفالت کا اہتمام کرنا ہے، جو بہرحال سہل نہیں۔
حکومت کتنی ہی فعال اور اہل ہو، یہ چیلینج بہت بڑا ہے۔ اس سے نمٹنے کا طریقہ یہ ہے کہ مخیر حضرات آگے آکر حکومت پاکستان کا ہاتھ بٹائیں۔
گو پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے، مگر سماجی خدمت کے میدان میں اس کے باسیوں نے لازوال کہانیوں کو جنم دیا۔
عبدالستار ایدھی، ڈاکٹر ادیب رضوی، ڈاکٹر رتھ فائو۔ یہ شخصیات روشنیوں کے شہر کراچی کی پہچان ہیں۔ ان افراد نے دکھی انسانیت کی خدمت کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی۔ حکیم سعید جیسے لوگ کبھی اسی شہر کا حصہ تھے۔ ملک کے دیگر شہروں میں بھی ایسی روشن مثالیں موجود ہیں۔
آج بھی شہر شہر روزانہ درجنوں دستر خوان بچھائے جاتے ہیں، سیکڑوں لنگر خانے چل رہے ہیں، ایسے ہزاروں افراد ہیں، جو خاموشی سے غربا کی مدد کر رہے ہیں۔ یہی افراد اس معاشرے کے اصل ہیرو ہیں۔ اور ہم پر لازم ہے کہ ان کے نقش پا کا تعاقب کریں۔
راقم کی خود بھی یہی کوشش، اوروں کو بھی یہی مشورہ کہ اپنے اردگرد موجود افراد پر نظر رکھیں۔ جہاں ایسے گھرانے موجود ہیں، جن کی مشکلات کا ہم بہ آسانی اندازہ لگا سکتے ہیں، وہیں ایسے سفید پوش افراد کی بھی کمی نہیں، جو شرم اور جھجک کے باعث اپنا مدعا بیان نہیں کرپاتے۔
اگر ہر باثروت شخص تین خاندانوں کا سہارا بن جائے، ان کے گھر ایک ماہ کا راشن پہنچا دے، تو میرا یقین کریں، ہم اس مشکل وقت سے اپنے بھرم کو قائم رکھتے ہوئے سہولت سے نکل جائیں گے۔
ہم ایک باہمت قوم ہیں، ہماری آزادی کی جدوجہد ہمارے عزم کی کہانی ہے۔ ماضی میں اس سے بڑی مشکلات آئیں، جن کا ہم نے جواں مردی سے مقابلہ کیا۔ ہم نے دہشت گردی کے عفریت کو بھی شکست دے۔ اور اب ہم اس مرض کو بھی شکست دیں گے۔
سماجی فاصلے کے باوجود ہم ایک دوسرے کے قریب ہیں، مصافحہ کیے بغیر ہم نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام رکھا ہے۔
حکومت کے جامع اقدامت، عوام کے عزم اور مخیر حضرات کی دریا دلی کے سامنے یہ بحران جلد ہتھیار ڈال دے گا۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔