پاکستان جیسے ملک میں آن لائین تعلیم ممکن ہے؟

نازیہ علی

لاک ڈاون شروع ہوتے ہی تمام تعلیمی ادارے بند کردیے گے، وقت ضرورت اچھا اقدام تھا۔
مگر مارچ کے آخر میں آن لائن کلاسز کا آغاز ہوتا ہوا نظر آیا۔ لیکن جب وزیر تعلیم کے بیانات سامنے آئے کہ پیپر آن لائن ہوں گے اور اب کورونا وائرس کے دوران تعلیمی نظام کو آن لائن کرنے پر مشاورت جاری ہے تو میں حیران ہوگئی اور مجھے بہت غصہ بھی آیا۔ آپکو بھی وجوہات بتاتی ہوں کہ میں غصہ کیوں ہوئی۔
ٹیچر اور پروفیسر کے پاس سوائےآن لائن کے کوئی ذریعہ نہیں کہ وہ تعلیم کو جاری رکھے۔
تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ہمارا تو ابھی تک کوئی ڈیجیٹل انفراسٹرکچر ہی نہیں ہے۔ طالب علموں اور ٹیچرز کے ساتھ۔ بہت سے مسائل ہیں۔ ہم ان مسائل پر بات کریں۔
١۔ بجلی
٢۔۔۔انٹر نیٹ کنیکشن اور سپیڈ
٣۔۔ڈیوائیسز اور اسمارٹ فون
بجلی
گورنمنٹ کے مطابق تو پورے ملک میں بجلی آتی ہے مگر میری ریسرچ کے مطابق بامشکل ستر فیصد لوگوں تک بجلی کی رسائی ممکن ہوتی ہے۔
اب آجائیں جہاں لائٹ ہے تو وہاں لائٹ کہی دس کہی پندرہ گھنٹے ہوتی ہے۔گرمی میں تو بجلی کے ڈیٹا کا تو کوئی علم گورنمنٹ کو نہیں تو ہم عام انسان کو کیسے ہوسکتا ہے اور جب بجلی نہیں ہوگی تو ڈیوائس کیسے چلے گی اور اگر کچھ گھر میں یو پی ایس ہے تو وہ پورا پورا دن نہیں چلتا اور دوسرا ہر جگہ یو پی ایس نہیں ہے۔ تو کیسے ہر جگہ آن لائن کلاسز ممکن ہے بغیر بجلی کے تو ہم فیل ہیں۔ آن لائن تعلیم میں ڈیوائس
ہر کسی کے پاس نہیں ہے۔ موبائل میں ایک جی بی ڈیٹا یا تھوڑا زیادہ عوام کو پیکج میں ملتا ہے تو وہ کس طرح آن لائن کلاس لینگے۔ صرف پڑھنے کے لیے ایک غریب انسان کہا تک اپنے بچوں کو نیٹ کا پیکج دلاسکتا ہے جبکہ کوئی روزگار بھی نہیں لوک ڈاون کی وجہ سے۔ جبکہ پوری دنیا میں لاک ڈاون کے بعد اسپیڈ کم ہوگی ہے۔ اسپیڈ ٹیسٹ نام کی ایک ویؑب سائیڈ کا کہنا ہے کہ دنیا کہ اٹھارہ فیصد اسپیڈ کم ہوگئی ہے اور آگے مزید کم ہونے کے چانسس ہے۔ بچوں کی پڑھائی کے دوران پروپر نیٹ کی ضرورت ہوتی ہے تو سوچیے جنکے پاس نیٹ نہیں ہے جنکے پاس ڈیوائس نہیں وہ کیسے آن لائن تعلیم حاصل کرسکتے ہے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ میرے علم میں کوئ ایسی آفیشل ویب سائیٹ نہیں جہاں یہ ڈیٹا ہو کہ کتنے گھروں میں کمپیوٹر، لیپ ٹاپ،نوٹ بک ، نیٹ بک، پام ٹوپ، ٹیبلیٹ اور اسمارٹ فون وغیرہ۔
کراچی جیسا ترقی یافتہ شہر میں بھی یہ چیزیں ہر شخص کے پاس موجود نہیں ہے تو بھلا پورا ملک جسکی ساٹھ فیصد آبادی کسانوں پر غریب آبادی پر مشتمل ہیں تو کس طرح یہاں آن لائن تعلیم یا پیپر ہو سکتے ہیں۔ بہت زیادہ سوچنے کی ضرورت ہے۔ نہ کہ بس سوچا اور میڈیا پر پریس ریلیز یا بیان دے دیا کہ پیپر یا تعلیم آن لائن شروع کر رے ہے۔ ٹک ٹاک چلانے یا تعلیم حاصل کرنے میں بہت فرق ہے۔ یہ بھی ایک خاص بات ہے کہ کتنے لوگ کمپیوٹر کو چلانا جانتے ہے۔
مثال کے طور پر ایک ڈرائیور یا کوئی بھی شخص اسکے چار بچے ہیں چاروں کی کلاسس الگ ہیں تو اس صورت میں اپنے ابو کے مو بائل کو کونسا بچہ لے گا۔
(کیا حکومت اپنے اقدامات کے مطابق کیا ماہرین سے مشورہ تک نہں کرتی یہاں تک کہ جہاں بات ہو اپنے ملک کے معماروں کی یہی تو پاکستان روشن مستقبل ہے ۔
تکلیف دہ بات یہ ہے کہ جس ملک کی ساٹھ فیصد آبادی کے اساتذہ اور طالب علم آن لائن تعلیم سے ناواقف ہوں۔
اساتذہ یہ نہیں جانتے کہ آن لائن کیسے پڑھایا جائے اور جہاں طالب علم یہ نہیں جانتےکہ آن لائن کیسے پڑھا جائے۔ وہاں تعلیم کا آن لائن کرنا اپنے ملک کو مزید پیچھے کی طرف دھکیل دے گا۔ حکومتی مشینری کو اپنی نااہلی ختم کر کے اب کم از کم پاکستان کے مسقبل یعنی تعلیم کا سوچنا چاہیے۔

بچے اسکول ہو یا کالج اور یونیورسٹی وہاں جاکر وہ گروپ میں تعلیم کے ساتھ ساتھ بہت کچھ سیکھتے ہیں۔لوگوں کے رویے سے، ٹیچر کے رویے اور پڑھائ کے انداذ سے، ٹیچر کی فیزیکلی باڈی لینگویج سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔اگے بڑھنے کی جستجو پیدا ہوتی ہے۔سروے کے مطابق آدھی آبادی دو کمروں کے گھر میں رہتی ہے۔
اخر میں یہ درخواست کرنا چاہونگی کہ خدارا پچھلی حکومتوں نے اگر تعلیم، الیکٹریک پر کام کیا ہوتا تو شاید آج ہمارے ہاں بھی ہر بچہ آن لائن تعلیم حاصل کر رہا ہوتا۔مگر افسوس ماضی کی حکومتوں نے بیڑا غرق کردیا اب کی حکومت سے عرض ہے تعلیم پر کام کرِیں۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔