غَزْوَہ بَدَر

سُہیر عارف

بَدَر مدینے سے ٧٠ مِیل دوری پر ایک کُنویں کا نام ہے.

جنگِ بدر مسلمانوں کی پہلی بڑی جنگ ہے جو اُنھوں نے مُشرِکِین کے خلاف لڑی، اِس سے پہلے بھی دونوں کے درمیان چھوٹے موٹے مَعَرکے ہوچکے تھے لیکن غزوۃ بدر ایک فیصلہ کُن جنگ ثابِت ہوئی، اِسی لیے اِس کو حَق اور باطِل کا مَعَرکہ بھی کہا جاتا ہے.

بَدَر کی جنگ پہلے سے طے شُدہ نہیں تھی مسلمان تو ابو سُفیان سے اپنا مال لینے کے لیے گئے تھے جس پر مشرکین نے قبضہ کر لیا تھا، اور اِسی دوران اُس نے مکہ سے مدد کے لیے پیغام بھیجا اور قریش اپنی پوری تیاری کے ساتھ مسلمانوں سے جنگ کے لیے پہنچ گئے، اور پھر اللہ کریم نے نبی (علیہ السلام) سے اِن دو گروہوں میں سے ایک پر فتح کا وعدہ کیا اور پھر مسلمان اور مشرکین بدر کے مقام پر جمع ہوگئے.

جنگِ بَدَر میں مسلمانوں کی تعداد کم و بیش ۳۱۳ تھی اور اُن
کے پاس صرف دو گھوڑے اور ٧٠ اونٹ اور چند ہتھیار تھے، جبکہ مشرکین کی تعداد ١٠٠٠ کے قریب تھی اور اُن کے پاس ١٠٠ گھوڑے، ١٧٠ اونٹ اور ہر ایک کے پاس ہتھیار تھے.

یہ جنگ اِس لیے بھی مُنفرِد ہے کیونکہ اِس جنگ میں مقابلہ پر اپنے ہی قریبی رشتہ دار تھے، کسی کا باپ مشرکین کے ساتھ ہے، کسی کا بیٹا، کسی کا ماما تو کسی کا چچا مشرکین کی طرف سے لڑنے آیا تھا.

جنگ کے آغاز سے پہلے نبی (علیہ السلام) نے اپنے رب سے بہت گریہ و زاری کے ساتھ دُعائیں کیں، جس پر اللہ کریم نے ٥٠٠٠ فرشتے مسلمانوں کی مدد کے لیے بھیجے جو ایک قطار میں آسمان سے اُترے چلے آتے تھے جس کی وجہ سے مُشرکین پر خوف طاری ہوگیا.

جنگِ بَدَر میں عُمَر بن خطاب نے اپنے چچا کو قَتَل کیا، ابو عبیدہ بن جَراح نے اپنے باپ کو قَتَل کیا، بلال ابن رباح نے اپنے آقا کو قَتَل کیا، اور ملعون ابُو جَہَل کو دو بچوں کے ہاتھوں شکست ملی لیکن اُس کا اختتام عبداللہ ابن مسعود کے ہاتھوں ہؤا.

لیکن اِس جنگ میں جو بَہَادری کے جوہَر علی بن ابی طالب اور حَمزہ بن عبدالمطلب نے دِکھائے وہ اپنی مثال رکھتے ہیں، اِن دونوں نے قُریش کے کئی مُشرک سرداروں کو جَہَنّم واصل کیا اور یہی دونوں اِس جنگ کے مَردِ مُجاہِد قرار پائے.

سوچنے کی بات یہ ہے کہ مسلمان اتنی کم تعداد ہونے کے باوجود بھی جنگ جیت گئے، تو یہ اِس وجہ سے کیونکہ مسلمانوں کا ایمان کامِل تھا اور اُنھیں اللہ اور اُس کے رسول (صل اللہ علیہ والہ وسلم) پر پورا یقین تھا، مسلمانوں کا مقصد دنیاوی مال یا غنیمت حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ صرف اللہ اور اُس کے رسول (علیہ السلام) کی خوشنودی حاصل کرنا اور اسلام کی سَر بُلندی اُن کا اصل مقصد تھا.

جنگِ بَدَر میں مسلمانوں کی طرف سے ١٤ افراد شہید ہوئے جبکہ مُشرکین کی طرف سے ٧٠ واصلِ جَہَنّم اور ٧٠ ہی قید کر لیے گئے قَتَل ہونے والوں کو بَدَر کے مقام پر ایک کُنویں میں پھینک دیا گیا اور اُس وقت رسول (علیہ السلام) نے مُشرکین سے مُخاطب ہو کر فرمایا کہ؛ (مَفہوم) کیا تُم لوگوں نے اپنے رب کے وعدہ کو سچا پالیا اور پھر عَمّار بن یاسِر سے فرمایا کہ اللہ رحیم نے تیری ماں (سُمیّہ) کا بدلہ لے لیا، کیونکہ ابو جَہَل نے حضرت سُمیّہ کو بے رَحمی سے قَتَل کیا تھا اور قید ہونے والوں کو بعد میں فِدیہ لے کر چھوڑ دیا گیا.

بَدَر میں شریک ہونے والے مسلمانوں کی فضیلت کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نبی (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اللہ کریم نے بَدَر کے دِن آسمان سے جھانک کر فرمایا (مفہوم) کہ میں نے اِن لوگوں کی تمام خطائیں مُعاف کردی ہیں.
حضرَت عُثمان اِس جنگ میں رسول (علیہ السلام) کے حُکم پر اپنی اہلیہ اور دُخترِ رسول (علیہ السلام) سَیّدہ رُقَیّہ کی تیمارداری کی وجہ سے شریک نہ ہوسکے لیکن نبی (علیہ السلام) نے اُن کو بھی بَدری صحابی شُمار کیا.

غزوۃ بَدَر ١٧ رمضان المبارک ٢ھ بمقام بَدَر کے کنیں پر ہؤا.

اگر ہم بھی اللہ کریم پر اُسی طرح ایمان رکھیں اور اُس کے رسول (علیہ السلام) کی سنّت پر عَمَل کریں جِس طرح حق ہے اور اہلِ بَدَر کی طرح اسلام کے لیے قُربانیاں دیں تو آج ہم مسلمان جو اتنی پَستی کا شِکار ہیں اللہ رحیم ہمیں بھی سُرخ رُو کرے گا.

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔