دنیا کی سب سے مہنگی وبا

اسریٰ پاشا

کورونا وائرس دن با دن مہلک اور خطرناک ہوتا جا رہا ہے، یہ جو چاہتا ہے وہی ہو کر رہتا ہے۔ جو لوگ کسی بیماری کو خاطر میں نہیں لیتے تھے اب ہر چھینک کی آواز پر پلٹتے ہیں اور حدود اربعہ سے فاصلہ اختیار کرنے کی تدبیر کرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔

عالمی معیشت کو فلو سے کبھی ایک مہینے میں اس نوعیت کا نقصان نہیں پہنچا جتنا کورونا پہنچا چکا ہے۔ اس کا رُخ صرف کسی ایک مخصوس مارکیٹ کی طرف نہیں رہا یہ پے در پے صحت مند کاروباری بازاروں کو بھی دبوچ رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق جنوری 2020 سے اب تک سولہ کھرب کا ٹیکہ لگ چکا ہے۔

فی الحال مجموعی معاشی نقصان کا تخمینہ لگانا قبل از وقت ہے کیونکہ رواں سال کی جی ڈی پی گروتھ، پیداوار اور تجارتی سرگرمیوں کی سرکاری شماریات معاشی سال کے اختتام پر ہی جاری کی جائیں گی۔ اب تک کی صورتِ حال کا اندازہ صرف عالمی اسٹاک مارکیٹزکی چھینکوں سے لگایا جا سکتا ہے۔

رواں ہفتے کے دوران امریکا، برطانیہ اور کینیڈا بھی چین، جاپان اور انڈیا جیسی ایشیائی مارکیٹ کے غم میں برابر کے شریک ہوگئے۔ کورونا ٹریڈنگ اسکرینز سے ہوتا ہوا کئی معاشی سرگرمیوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ 9 مارچ کو تمام نمایاں اسٹاک مارکیٹز کے سر فلو سے جھک گئے جب ناسڈک (امریکن اسٹاک مارکیٹ) اور ایف ٹی ایس ای (برٹش اسٹاک مارکیٹ) 5۔7 فیصد اور 7۔7 فیصد ترتیب وار مندی کا شکار ہوئے، نکائی (جاپانی اسٹاک مارکیٹ) 5 فیصد، چینی اسٹاک مارکیٹ مجموعی طور پر 6 فیصد اور ہانک کانگ کی مارکیٹ چار فیصد نیچے آئی۔
9 مارچ کو ایک اور بلیک منڈے سے تشبیہ دی جا رہی ہے اور اس دن کو 2008 کے معاشی بحران کے بعد سب سے بھیانک دن تصور کیا جا رہا ہے۔
صرف اسٹاک مارکیٹ ہی نہیں مختلف صنعتی شعبے بھی اس کرونا کا شکار ہوئے ہیں۔ آٹو موبائل، الیکٹرانک، ایویئیشن اور سیاحتی شعبوں سے لے کر درآمدات اور برآمادات پر بھی کورونا کا کالا سایہ پر چکا ہے۔

چین جو کہ اس وقت بین الاقوامی برآمدات میں بڑا نام ہے وہاں گاڑیوں کی فروخت میں 80 فیصد تک کی کمی دیکھنے میں آئی ہے، جبکہ عمومی برآمدات کے شعبے میں جنوری سے اب تک تقریباََ 18 فیصد تک کی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

گزشتہ ایک ماہ کے دوران چین ایک سلیپنگ موڈ میں داخل ہوگیا ہے ۔جہاں ہر وقت صنعتی پیداوار اور ترقیاتی و تحقیقاتی کام جاری رہتے تھے وہاں اب انسان ماسک اور محفوظ سوٹ میں قید ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے گزر جاتےہیں ۔آپس میں رابطے سے بھی گریز کیا جا رہا ہے۔

لیکن ان سب باتوں کے ساتھ، صرف چین کے آرام سے بیٹھنے کی بدولت ہوائی اور سمندری آلودگی میں واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ دھواں اور کاربن گیس کے اخراج اور سمندری راستوں پر آمد و رفت میں نمایاں کمی کے باعث سمندری حیات کو بھی سکون کا سانس ملا ہے۔

کورونا ایک بدمعاش کی طرح جو چاہ رہا ہے کروا رہا ہے۔ یہ قدرتی آفت ہو یا چاہے انسانوں کی سازش، لیکن ایک بات تو طے ہے کہ کورونا ایک انتقامی ہتھیاڑ کے طور پر نہایت موثر ہے۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔