” یہ سماج اور انسانیت "
کسی شخص کی پرواہ آپ کے احساسات و خیالات کو دوسروں کیلئے سوچنے پر آمادہ کرتی ہے۔ یہ وہی احساس ہے جسے آپ تخیّل آرائی میں اپنے قریبی چاہنے والے کیلئے اپنے قیمتی لمحات صٙرف کرتے ہیں ۔ یہ وہی احساس ہے جو ہمیں اِک مثبت سوچ کا معمار بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ یہ وہی احساس ہے جو ہمیں انسانیت کی خاطر کچھ کرکے دِکھانے والا جذبہ اُبھار کر اِس ملک و قوم کا بہترین انسان بناتا ہے ۔ انسانیت کے اِس جذبے نے جہاں مثبت کام کرواۓ ہیں وہیں اِس کی آڑ میں منفی سوچ اور کئی نقصانات بھی دیکھنے کو ملے ہیں ۔
آپ کی سچی محبّت چاہے عشقِ مجازی ہو یا عشقِ حقیقی دونوں ہی آپ کو محبّت کرنا سِکھاتی ہیں اور صرف محبوب سے ہی نہیں بلکہ مخلوق کا درد اور اُس کی پرواہ وقت کے ساتھ ساتھ آپ کے دل میں ابتداء ہوجاتی ہے ۔ لیکن بدقسمتی سے اکثر ہماری فطرت و سوچ کا کردار بڑا گھناؤنا رہا ہے اور یہی سوچ فقط کسی مفاد میں بھی مصروف العمل رہی ہے ۔ یہاں بات نیت کی ہے اکثر اوقات اگر انسانیت کی خدمت کی جاتی ہے تو فقط اپنی کمیونٹی کو فائدہ پہنچانے کے سبب ۔ ہمدردی کا جنون فقط کسی مفاد کی بنیاد پر ہوتا ہے ۔ مذہبی تقاضے و حقوق دوسروں پر لاگو ہوتے ہیں، خود کی ذات پر بات آئے تو اُنکا اعتبار آزادانہ سوچ میں تبدیل ہوجاتا ہے ۔
ایسے ہی چند لوگ اِس احساس کا استعمال غلط طریقے سے کرتے ہیں مثلاً اپنی عزت و شہرت کا لوہا منواتے ہیں ۔ ایسی عزت اور شہرت کا کیا فائدہ جس میں آپ سوشل میڈیا کے ذریعے انسانیت کا لفظ استعمال کرکے عوام کو اپنی طرف متوجہ کریں لیکن اِس کے برعکس آپ کے دل میں فقط اپنی کمیونٹی اور اپنے مکتبہ فکر کیلئے محبّت ہے ۔ باقی پوری انسانیت کہاں گئی کچھ پتہ نہیں ۔ اِس پیارے احساس کی ناقدری نے انسانیت لفظ کی اصل حقیقت و معیار گنوا دیا ہے ۔
اگر یہی طرزِ عمل اپنایا ہوا ہے تو خدارا اِس کو درست کریں ۔ دنیا کے ساتھ ساتھ دین کو بھی لیکر چلیں اور دین کی بات کو فروغ دینے میں کسی قسم کی شرم نہیں ہونی چاہیے ۔ آزادانہ سوچ کی بِنا پر دینِ اسلام کا مذاق اور اِس میں نقص نکالنا چھوڑ دیں ۔ اگر بھلا چاہتے ہیں تو سب کا بھلا چاہیں ۔ دل میں منافقت اور نفرت سے لبریز غلاظت کو باہر نکال پھینکیں ۔ اور سماج کے خرافات کو جوتی کی ایڑھی تلے مسل کر آگے بڑھیں اور ترقی کی منازل طے کریں ۔