طاقتیں تمھاری ہیں مگر

ڈاکٹر عمیر ہارون

دنیا کو دیکھنے کا نظریہ یکسر مختلف ہو جائے گا کس نے سوچا تھا؟ جینے کا ڈھنگ اور سلیقہ بلکل بدل جائے گا کسے خبر تھی؟ ساری اہم اور قیمتی چیزیں ایک پل میں بے معنی سی لگنے لگیں گی کس نے جانا تھا؟ مصروفیات، کام، کروڑوں، اربوں کی ڈیل، پیسوں کی فراوانی، فیکٹریاں، دفاتر، کاروبار، فلائیٹس، یہ سب ایک دم رُک جائے گا کسے علم تھا؟ زندگی کی تیز چلتی گاڑی یوں ایک دم اپنے راستے سے ہٹ کر ایک نامعلوم مقام پر آکر رُک جائے گی کسے معلوم تھا؟ آج سے صرف چند دن پہلے ہماری زندگی کیسی تھی؟ روزمرہ کے کام، دفتر، مصروفیات، شاپنگ، شادیاں، پارٹیز، ریسٹورینٹز، آوُٹنگز، پکنکز، کھیل یہ سب ہماری زندگی کا حصہ تھے، لیکن آج ہماری زندگی کیا ہوگئی؟

ہمارے عقیدے، ہمارا یقین، ہمارا علم، ہماری ریسرچ، ہماری طاقتیں سب ایک جگہ اور کورونا ایک بظاہر چھوٹا سا وائرس ایک جگہ۔ زندگی بند گلی میں آکر پھنس جائے گی، کیا ایسا کبھی سوچا تھا کسی نے؟ سائنسدانوں کی ایجادات، ڈاکٹرز کے نئے نسخے، بڑی بڑی فارماسیوٹیکلز کی ریسرچز، باباوُں، پنڈتوں، جوگیوں، پیروں، فقیروں کے چِلے، مائنڈ سائنس کے چیمپیئن، موٹیویشنل اسپیکرز، فلاسفر، اسکالر، پروفیسرز، دہریے، مذہبی سب کے سب ایک کورونا سے اس قدر خوفزدہ ہو جائیں گے کسے معلوم تھا؟

سارے اندھ وشواس اور وشواس یعنی کہ جعلی یقین اور پختہ یقین سب ایک جگہ اکھٹا ہو کر بے بسی کی مورت بنے ہوئے ہیں۔ صرف یہ نہیں سپر پاورز، دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں، اسلحہ بنانے کی فیکٹریاں، ایٹم بم اور اس سے بھی جدید ترین بم بنانے والے طاقتور ترین ممالک، اقتصادیات اور معیشت کے خدا، دنیا کو اپنی انگلیوں پر چلانے والے کورپوریٹرز اور بزنس ٹائیکونز سب امان کی تلاش میں ہیں، سب ان دیکھے وائرس کے خوف سے گھر تک محدود ہیں۔

کہاں ہیں وہ جن کے پاس ہر مرض کا علاج صرف ایک فون کال کی دوری پر ہوتا ہے؟ کہاں گئے شردہا کا دھندا یعنی کہ عقیدت کا کاروبار کرنے والے؟ کہاں ہیں بتوں کو لاکھوں ٹن کا دودھ چڑھا کر مرادیں پانے والے؟ کہاں ہیں اتوار کے دن موم بتیاں جلا کر دنیا کو روشن کرنے والے؟ کہاں ہیں دیگیں چڑھا کر چاہت کو پورا کرنے والے؟ کہاں ہیں وہ مذہب بیزار جو سائنس کو مذہب تصور کرتے تھے؟ کہاں ہیں دنیا کے بڑے بڑے گیانی، درویش جنہوں نے دنیا کی ساری گتھی سلجھا رکھی تھی؟ ایک معمولی وائرس کے آگے سب گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئے؟ لاچار اور بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں؟

آج اس وائرس نے ثابت کردیا کہ یہ طاقتیں تمھاری اور ہماری نہیں ہیں، طاقتیں اُس ان دیکھے خدا کی ہیں جو سب کا پالن ہاڑ ہے، جو سب کی سُنتا ہے، جو سب کی عقیدتوں کی لاج رکھتا ہے، جو اسے نہیں مانتا اُسے بھی وہی کھلاتا پلاتا ہے۔ آج سارے زمینی خدا مجبور ہیں، آج ساری طاقتیں کمزور ہیں، آج ساری دنیا ایک طرف ہے اور اُس کا بھیجا ہوا ایک وائرس ایک طرف ہے۔ وہ چاہے تو پل بھر میں کایا پلٹ دے، وہ چاہے تو دنیا کو برباد کرکے پھر آباد کردے،وہ چاہے تو نئی دنیا اور نئے لوگ بنا لے۔ سب اُس کی چاہت کے محتاج ہیں، سب اُس کے آگے لاچار ہیں۔ اُسی کو حمد ہے کہ وہ سب سے بڑا گیانی ہے!

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔