قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو، ایک کرشماتی شخصیت

ذوالفقار علی بھٹو کرشماتی شخصیت کے حامل تھے، انہوں نے سیاست کو نیا چلن عطا کیا، اسے ڈرائنگ روم سے نکال کر عوامی سطح پر صحیح معنوں میں متعارف کرانے کا سہرا اُنہی کے سر بندھتا ہے۔ پاکستان کی سیاست پر اُن کے اثرات آج بھی باقی ہیں۔ آج بھٹو صاحب کا 44 واں یوم وفات ہے، ان کے چاہنے والوں کی بڑی تعداد ملک کے طول و عرض میں موجود ہے۔ آپ پیپلز پارٹی کے بانی اور پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو سابق وزیراعظم جونا گڑھ سر شاہ نواز بھٹو کے صاحبزادے اور سابق وزیراعظم پاکستان محترمہ بے نظیر بھٹو کے والد تھے۔ امریکا کے نامور تعلیمی اداروں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ بھٹو پاکستان کے سب سے خوش پوش حکمران تھے۔ اسکندر مرزا اور ایوب خان کے دور میں بطور وزیر حکومتی ایوانوں میں داخل ہوئے، جلد ہی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور ان کا شمار ایوب کابینہ کے قابل ترین وزراء میں ہونے لگا۔ انہوں نے بطور وزیر خارجہ اپنی قابلیت کے بل بوتے پر دنیا بھر میں اپنی دھاک بٹھائی۔
بھٹو صاحب ذہانت و فطانت کے خصائص سے مالا مال تھے۔ انہوں نے خارجہ امور پر انتہا کی گرفت اور موثر خارجہ پالیسی کے ذریعے پاکستان کو دنیا بھر میں روشناس کراکر عوام کے دلوں پر راج کیا۔ بطور وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو دنیا بھر میں مقبول ہوچکے تھے اور عالمی استعماری طاقتوں کو انہوں نے بغور قریب سے دیکھا اور ان کی تیسری دنیا بالخصوص پاکستان اور دیگر مسلم ممالک کے ساتھ دشمنی کو 60 کی دہائی میں ہی محسوس کرلیا تھا۔ اس دوران ایوب خان کابینہ میں بھٹو بطور وزیر انڈسٹریز تھے، ایٹمی طاقت کے حصول کے لیے دنیا بھر سے معلومات اکٹھی کرنا شروع کرچکے تھے۔ معاہدہئ تاشقند کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے وزارت خارجہ سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کو بیرون ملک سے بلاکر اقتدار منتقل کیا گیا۔ جب بھٹو نے اقتدار سنبھالا تو پاکستان بہت بری حالت میں تھا۔ عوام کی حالت انتہائی دگرگوں تھی، قریباً 90 ہزار جنگی قیدی اور پانچ ہزار مربع میل علاقہ بھارت کے قبضے میں تھا۔ ایسے میں ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو ازسرنو تعمیر کرنے کا بیڑا اٹھایا اور بھارت سے 90 ہزار جنگی قیدی اور پانچ ہزار مربع میل علاقہ آزاد کروایا۔ بھٹو نے 1973 میں پاکستان کو ایک متفقہ آئین دیا، جس پر اپوزیشن (جو بھٹو کے کٹر مخالفین پر مشتمل تھی) نے بھی اتفاق کیا۔ انہوں نے پاکستان کے تباہ حال اداروں کو ازسرنو منظم کرنے کا بیڑا اٹھایا۔
اُن کے سیاسی کیریئر کا عروج 1974 سے شروع ہوا، جب ذوالفقار علی بھٹو نے لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کروانے کی ٹھانی۔ دنیا بھر کے مسلم ممالک کے سربراہان کو لاہور میں اکٹھا کرکے ذوالفقار علی بھٹو نے سامراج اور استعمار کو للکار دیا تھا اور امریکا سمیت مغرب کے عرب ممالک سے وابستہ مفادات کو گہری چوٹ لگائی تھی۔ بھٹو نے ٹوٹے ہوئے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنوایا۔ اُن کے تاریخی جملے ”گھاس کھا لیں گے لیکن ایٹم بم بنائیں گے“ کی بازگشت آج بھی پاکستان کی فضاؤں میں سنائی دیتی ہے۔ دلیری بھٹو کو دنیا کے تمام رہنماؤں سے ممتاز کرتی تھی۔ 1974 میں پوکھران میں بھارت کی جانب سے ایٹمی دھماکوں کے بعد بھٹو نے فوراً ایٹمی طاقت کے حصول کی عملی کوششیں شروع کردیں اور اس عمل میں شاہ فیصل، کرنل قذافی نے بھٹو کا بھرپور ساتھ دیا۔ اس خطے میں طاقت کا توازن برقرار کرنے میں جو کردار ذوالفقار علی بھٹو ادا کرچکے، اب تو اس کا تصور بھی محال ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان میں محروم طبقے کے حقوق کی عملی جدوجہد کی اور انہیں اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے لڑنے کی ترغیب دی۔ کراچی اسٹیل مل اور بہت سے بڑے ادارے بھٹو کے دور حکومت میں بنائے گئے اور دنیا میں بطور قوم پاکستان کی عزت بڑھی۔ بھٹو نے اپنے اقتدار کے صرف 5 سال اور کچھ مہینوں میں جو کارنامے سرانجام دیے، ان کا تصور محال ہے۔ آج کی سیاست پر نظر دوڑائیں تو ذوالفقار علی بھٹو جیسا ”عالمی سیاسی مدبر“ دنیا بھر میں دکھائی نہیں دیتا جو اپنے اقتدار میں ایک ”دھیلے“ کی کرپشن میں بھی ملوث نہیں تھا۔ ایسا ”قائد عوام“ جس کے چاہنے والے آج بھی اُس کا دم بھرتے نظر آتے ہیں۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔