یوم پاکستان اور اُس کے تقاضے

محمد راحیل وارثی

23 مارچ 1940 انتہائی اہم دن ہے کہ اس روز مسلمانان برصغیر کی زندگی میں ایسا موقع آیا، جس نے تاریخ کا رُخ یکسر موڑ کر رکھ دیا، اس کے سبب آزاد وطن کی راہ ہموار ہوئی اور قائداعظم کی قیادت میں محض سات برس کی جدوجہد کے نتیجے میں برصغیر کے ایک آزاد اور علیحدہ وطن دُنیا کے نقشے پر پاکستان کے نام سے نمودار ہوا۔ 23 مارچ 1940 کو بادشاہی مسجد لاہورکے قریب ایک وسیع و عریض میدان منٹو پارک میں ہندوستان کے کونے کونے سے لاکھوں مسلمان اکٹھے ہوئے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی زیر صدارت بنگال کے وزیراعلیٰ مولوی فضل حق نے ایک قرارداد پیش کی، جس کو اُس وقت تو قراردادِ لاہور کہا گیا، لیکن آج یہ قرارداد پاکستان کہلاتی ہے۔ اس قرارداد کا مسودہ سر سکندر حیات خان نے تیار کیا اور اس کی تائید یو پی سے مسلم لیگی رہنما چودھری خلیق الزمان، پنجاب سے مولانا ظفر علی خان، سرحد سے سردار اورنگزیب، سندھ سے سر عبداللہ ہارون اور بلوچستان سے قاضی عیسیٰ نے کی۔ اس قرار داد کی روشنی میں قائد اعظم محمد علی جناح نے خداداد قابلیت، سیاسی فہم و فراست سے ہندوستان کے مسلمانوں کے اندر ایک نیا ولولہ اور جوش پیدا کیا۔
دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک مسلمانان ہند مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد ہوچکے تھے۔ 1945 میں وائسرائے ہند لارڈ ویول نے مسلم لیگ اور دوسری جماعتوں کی طاقت کا اندازہ کرنے کے لیے انتخابات کروائے۔ مسلم لیگ کو تاریخی فتح ہوئی اور مسلم لیگ مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت بن کر سامنے آئی۔ قائداعظمؒ نے قیامِ پاکستان سے پہلے اور اس کے بعد بھی متعدد مواقع پراس کے مقاصد کو نہایت واضح اور غیر مبہم الفاظ میں بیان کیا ہے۔23 مارچ 1940 کو اپنے خطاب کے دوران آپ نے فرمایا: اپنی تنظیم اس طور پر کیجیے کہ کسی پر بھروسا کرنے کی ضرورت نہ رہے، یہی آپ کا واحد اور بہترین تحفظ ہے۔ اِس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم کسی کے خلاف بدخواہی یا عناد رکھیں۔ اپنے حقوق اور مفاد کے تحفظ کے لیے وہ طاقت پیدا کرلیجیے کہ آپ اپنی مدافعت کرسکیں۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے نوجوانوں کی اکثریت قیام پاکستان کے لیے ہمارے اسلاف کی جدوجہد اور قربانیوں سے یکسر بے خبر ہے، اُنہیں علیحدہ وطن کے قیام کے مقاصد سے واجبی سی بھی آگہی نہیں۔ نئی نسل کو بتانے اور سمجھانے کی ضرورت ہے کہ قرار داد پاکستان کے وہ کون سے مقاصد تھے جن کے تحت مسلمانانِ برصغیر نے اپنے علیحدہ تشخص کی آواز اٹھائی اور جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ ہندوستان میں مسلمان آٹھ سو سال حکمران رہے، لیکن انہوں نے ہندوؤں کو زبردستی مسلمان بنایا اور نہ ان کے مذہبی معاملات میں مداخلت کی، لیکن ہندوؤں کو جب بھی موقع ملا، انہوں نے مسلمانوں کو زک پہنچانے کی کوشش کی۔ تاریخی حقائق اس امر پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں۔1847 میں شروع کی گئی ہندی تحریک ہو یا 1875 میں انگریزوں کے زیر سایہ پروان چڑھنے والی آریہ سماج تحریک، 1882 میں شروع ہونے والی گؤ رکھشا تحریک ہو یا 1920ء میں شروع کی گئی شدھی تحریک، ہر موقع پر مسلمانوں کو ہی نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی۔
آج یوم پاکستان ملک بھر میں منایا جارہا ہے۔ اس حوالے سے پروگرامز وغیرہ بھی خوب ہوتے ہیں، لیکن ہمارے اکثر لوگ اس دن کے تقاضوں سے یکسر عاری رہتے ہیں۔ مانا آج کے نوجوان جدوجہد اور قربانیوں کی اس عظیم داستان کا حصہ تو نہیں رہے، لیکن وہ ملک کو حقیقی معنوں میں قائدؒ کا پاکستان بناکر اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔ آج کچھ لوگ قیام پاکستان کے مقاصد اور دو قومی نظریے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے اور اس متعلق ہرزہ سرائی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے پروپیگنڈے جاری ہیں۔ ہمیں ہر موقع پر ان کے مذموم ہتھکنڈوں کا تدارک کرنا ہوگا۔ ہمیں قرارداد پاکستان کی روح کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا بھرپور حصہ ڈالنے کی کوششیں جاری رکھنی ہوں گی۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔