مسلمان پیچھے کیوں رہ گئے؟
تحریر: محمد فیضان خان
آج اگر ہم مغربی ممالک کی ترقی پر نظر ڈالیں تو مغربی ممالک ہم سے بہت آگے نکل گئے ہیں اور ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ ہمارا اگر کوئی رشتے دار یا کوئی عزیز مغربی ممالک میں رہ کر واپس آتا ہے تو وہاں کے نظام کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتا کہ وہ سچائی اور دیانت داری میں تو ہم سے آگے ہیں مگر اس کے علاوہ غیر مسلم ہونے کے باوجود اسلامی اصولوں کو بھی فالو کرتے ہیں۔
مغرب اتنی ترقی کر چکا ہے کہ مغرب کا مقابلہ کرنے کے لیے مسلمانوں کو ایک صدی یا اس سے بھی زیادہ کا وقت درکار ہوگا۔ یہ وہی ممالک ہیں جن پر کبھی مسلمان حکمرانی کیا کرتے تھے اور ان کی حالت ہم سے بھی بدتر تھی ۔ یہ سب کچھ مسلمان سائنسدانوں اور مسلمان حکمرانوں کی مرہون منت ہی ہے جن کے اصولوں کو اپناکر آج اہل مغرب مسلمان ممالک پر حاوی ہیں اور پوری دنیا پر راج کر رہہے ہیں۔ ان لوگوں نے مسلمانوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر ان ہی کی مرہون منت تیزی سے ترقی کی ہے۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج مسلمان مغرب کی عطا کردہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں لیکن پھر بھی مغرب کے مقام تک نہیں پہنچ پا رہے۔ جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ مغرب نے ہمیشہ مسلمان ممالک کو غلام بنا کر رکھنے کی کوشش کی ہے اور اس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ جب کبھی اہل مغرب کی طرف سے مسلمانوں پر ظلم و ستم کیا جاتا ہے تو ان کے دفاع میں اٹھنا تو دور کی بات مسلمان حکمرانوں کے منہ بھی بند ہو جاتے ہیں۔
آج ہم عغلت کی نیند سو رہے ہیں اپنی زندگیوں اور اختلافات میں اتنا کھوئے ہوئے ہیں کہ ہمیں کسی اور کی پرواہ ہی نہیں ہے اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اسلامی ممالک میں پڑھی جانے والی کتابوں کا پہلا باب ہی اسلامی نام کا محتاج ہے جبکہ پوری کتابیں اہل مغرب کے ناموں سے بھری پڑی ہیں۔ مسلمانوں کے زوال کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ مسلمان آج اسلامی احکامات اور اصولوں کے برعکس زندگی گزار رہا ہے اور مغرب کے دیے ہوئے اصولوں کو اپنائے ہوئے ہے۔
ایک مشہور واقعہ ہے کہ "ایک دن ایک شخص کہیں جا رہا تھا کہ شیطان اس کے ساتھ ہو گیا۔ راستے میں اس نے دیکھا کہ اس شخص نے فجر، ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نمازوں میں سے کوئی نماز ادا نہیں کی۔ پھر شیطان بولا، "میرے اور تیرے راستے اب سے جدا ہیں۔” اس آدمی نے وجہ پوچھی تو شیطان بولا، "میں نے آدم کو ایک سجدہ نہیں کیا تھا اللہ نے مجھے لعنت بھیجی۔ تو نے 34 سجدے نہ کیے وہ بھی آدم کے رب کو، مجھے تیرے انجام سے ڈر لگ رہا ہے۔ اس لیے آج سے تیرے میرے راستے الگ الگ ہیں۔”
آج مسلمان اپنی کتابیں اور قرآن مجید کو صرف ثواب کی نیت سے پڑھتے ہیں جبکہ اہل مغرب اس پر تحقیقات کر رہے ہیں۔ ہم نے اپنی زندگیوں کو اس قدر مصروف کر رکھا ہے کہ ہمارے پاس اپنے رب کی عبادت کے لئے بالکل بھی وقت نہیں ہے۔ یہاں تک کہ پانچ وقت کی نماز بھی ادا نہیں کر سکتے۔
مغرب کے پھیلائے ہوئے پروپیگنڈے کے مطابق مسلمانوں آج شرعی احکامات پر تنقید کر رہا ہے اور اس نے شریعت کے خلاف جانا اور اس کا مذاق اڑانا شروع کردیا ہے۔
اہل مغرب کو معلوم ہے کہ اگر مسلمانوں نے اپنے اسلامی احکامات کو صحیح طرح اپنالیا اور شرعی احکامات کی مکمل پاسداری کرنا شروع کر دی تو مسلمان پوری دنیا پر حاوی آ جائیں گے اسی لیے مغرب روز نئے ایجادات اور پروپیگنڈے کے ذریعے مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے
مسلمانوں نے بھی اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے کے بجائے اہل مغرب کی رسی کو مضبوطی سے پکڑا ہوا ہے جب تک اہل مغرب کی رسی نہیں چھوڑیں گے تب تک مسلمان غلامی کی زندگی ہی گزارتے رہیں گے اور اہل مغرب سے پیچھے ہی رہیں گے۔