برطانوی مصور نے اپنی ہزار سے زائد پینٹنگز کیوں جلائیں؟
لندن: برطانیہ سے تعلق رکھنے والے مصور نے مکمل ہوش و حواس میں اپنی ایک ہزار سے زائد پینٹنگ جلاڈالیں اور اب مہینے کے آخر تک مزید تین ہزار تصاویرجلا ڈالنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔
گزشتہ ہفتے 57 سالہ ڈیمین ہرسٹ کی آرٹ گیلری سے دھواں خارج ہورہا تھا کیونکہ انہوں نے بہت تیزی سے رنگین دائروں والی اپنی پینٹنگ نذرآتش کیں اور جب تک 1000 تصاویر راکھ نہیں ہوئیں انہوں نے ہاتھ نہیں روکا۔ اب وہ مزید تصاویر جلائیں گے جن کی تعداد ہزاروں میں ہے۔
اس سارے منظر کو کیمرہ مین نے ریکارڈ کیا اور چھ آتش دانوں میں جلنے والی تصاویر کی آن لائن اسٹریم جاری تھی۔ اسے انسٹاگرام اور دیگر پلیٹ فارم پر براہِ راست نشر کیا گیا تھا۔
ڈیمین نے چھ برس قبل دی کرنسی نام کا ایک مصورانہ منصوبہ شروع کیا تھا، جس میں اس نے رنگ برنگ گول نقاط والی 10 ہزار تصاویر بنائی تھیں۔ اب وہ چاہتے تھے کہ تمام شاہکار ایک مقام پر محفوظ رکھے جائیں اور سب کی این ایف ٹی بنائی جائے۔
بعدازاں انہوں نے صارفین سے کہا کہ آیا وہ حقیقی پینٹنگ کے ڈیجیٹل ٹوکن چاہتے ہیں یا پھر وہ اسے آگ میں جلتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ جواب میں 4851 صارفین نے کہا کہ پینٹنگ جلادی جائیں اور اس منگل کو انہوں نے اپنی ابتدائی ہزار سے زائد تصاویر جلائی ہیں۔
ڈیمین نے کہا کہ یہ کوئی جوا نہیں اور نہ ہی بے عقلی ہے کیونکہ آج کے دور میں آرٹ حقیقی ہو یا پھر ڈیجیٹل اس کی قدروقیمت برقرار رہتی ہے۔ اس طرح کوئی نقصان نہ ہوگا، بلکہ جلانے کے بعد انہیں ڈیجیٹل این ایف ٹی پر منتقل کردیا جائے جنہیں بعد میں فروخت کیا جاسکے گا۔
2016 سے شروع کی جانے والی ہزاروں تصاویر میں سے ہر ایک پر ڈیمین کے دستخط موجود ہیں۔ دلچسپ بات کہ ایک ہی جیسی ہونے کے باوجود ان کی کوئی دو تصاویر یکساں نہیں اور ہر ایک کے ٹوکن کی قیمت 2 ہزار ڈالر رکھی گئی ہے۔
اب تک ان کی ایک این ایف ٹی کی قیمت پونے دو لاکھ ڈالر تک پہنچ چکی ہے جب کہ جلنے کے بعد این ایف ٹی کی قیمت 10 گنا زائد تک بھی ہوسکتی ہے جب کہ ڈیمین اب مزید ہزاروں پینٹنگ جلانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔