پاکستان کا پہلا شہری کون تھا؟

سوال تو بہت ہیں۔ ذہن میں گردش کرتے اور اپنے جوابات کی تگ و دو میں لگادیتے ہیں۔ ایسا ہی ایک سوال ذہن میں اُبھرا، آخر پہلا پاکستانی شہری کون تھا؟ اس سوال کا جواب تلاش کیا تو خوش گوار حقائق سامنے آئے، پہلا پاکستانی کون تھا، جسے وطن عزیز کا پہلا پاسپورٹ جاری ہوا، یقیناً اس بات سے ملک کے اکثر عوام بے خبر ہوں گے۔ اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ قائداعظمؒ، شہیدِ ملت لیاقت علی خان؟ یا کوئی اور تحریک پاکستان کا رہنما، جی نہیں۔ وہ ایک یہودی (جو مشرف بہ اسلام ہوا) اور یورپ کے ملک آسٹریا کا باسی تھا، وہ آسٹریا کے قصبے لیمبرگ جو سلطنت آسٹریا اور ہنگری (جسے آج کل لوگ یوکرین کا شہر کہتے ہیں) میں 12 جولائی 1900 کو پیدا ہوا۔ اُس یہودی کا نام لیوپولڈ ویس تھا اور اُس نے سعودی عرب میں 6 سال گزارنے کے دوران ناصرف اسلام قبول کیا بلکہ عربی زبان پر عبور بھی حاصل کیا۔ اسلامی نام محمد اسد رکھا۔ قرآن شریف کا بغور مطالعہ کیا اور اُسے انگریزی میں ترجمہ کیا، جو آج بھی بہت سارے عالموں، فاضلوں کے لیے چراغ راہ ہے۔

محمد اسد زبان دان اور مؤرخ تھے، وہ کئی ایک زبانوں عربی، فارسی، یہودیوں کی زبان Hebrew پر قدرت رکھتے تھے۔ دُنیا بھر کے سفر کرچکے تھے۔ وہ 1922 میں فلسطین گئے، جہاں انہوں نے عربی پر عبور حاصل کیا اور اسلام اور دوسرے کئی مذاہب کے متعلق غور و فکر کیا، 1926 میں سعودی عرب گئے، جہاں 6 سال گزارے اور جب 1932 میں وہاں شورش برپا ہوئی اور کئی ایک سعودی اپنا ملک چھوڑ کر دوسری جگہ منتقل ہوگئے، تو انہوں نے بھی ہندوستان کا رُخ کیا اور لاہور میں سکونت اختیار کی۔ اُن کے علم و فضل کو دیکھتے ہوئے لاہور کے جدت پسندوں اور علم و فن کے دیوانوں نے محمد اسد کو عزت و احتشام بخشا۔ ڈاکٹر علامہ اقبالؒ بھی اُن سے بہت متاثر تھے، اقبالؒ کے کہنے پر انہوں نے صحرائے مکہ سے ہندوستان تک جو اونٹ کی پیٹھ پر بیٹھ کر طویل سفر اختیار کیا تھا، اُس پر سفرنامہ لکھا، جس کا عنوان تھا ”Road to Makkah“۔
سعودی عرب میں رہائش کے دوران شاہ ابنِ سعود نے اُنہیں انعام و اکرام سے نوازا اور اُنہیں اپنا مشیر مقرر کردیا، کچھ اور بھی ذمے داریاں دی گئیں جو انہوں نے بہ احسن و خوبی سرانجام دیں۔ علامہ اقبالؒ کے کہنے پر انہوں نے ایک اور کتاب تصنیف کی، جس کا نام تھا ”Islam at cross road“۔ یہ کتاب 1934 میں شائع ہوئی۔ اس کے بارے میں اقبالؒ نے تحریر کیا ہے کہ یہ تصنیف (جو ایک یورپین جو یہودی سے مسلمان ہوا تھا اور جذبۂ اسلام سے سرشار تھا) کی ہے، یہ بہت سے لوگوں، خاص طور پر نئی نسل کے لیے مشعل راہ ثابت ہوگی۔
دوسری جنگِ عظیم کے دوران جب ہٹلر نے یہودیوں کے خلاف مہم چلائی اور ہزاروں یہودیوں کو زندہ جلا ڈالا تو محمد اسد ہندوستان (جو تاجِ برطانیہ کے تحت تھا) میں آسٹرین ہونے کی وجہ سے گرفتار کرلیے گئے۔ اُنہیں آسٹریا کے قیدیوں کے کیمپ میں رکھا گیا، انہیں 1942 میں رہائی ملی، وہ فوری کراچی آگئے اور انہوں نے جس طرح تحریک پاکستان کے لیے خدمات انجام دیں، اپنی تحاریر اور دوسرے طریقوں سے وہ قائداعظمؒ کی نظروں میں تھیں۔ علیحدہ وطن کا خواب شرمندہ تعبیر اور پاکستان ظہور پذیر ہوا۔ لاکھوں زندگیوں کی قربانیاں رنگ لائیں۔

قیام پاکستان کے بعد انہیں ڈائریکٹر اسلامک انسٹی ٹیوٹ بنادیا گیا، اس عہدے پر رہ کر انہوں نے آئین پاکستان کی تشکیل کے لیے بہت کام کیا، لیکن وقت نے تیزی سے پلٹا کھایا، قائداعظمؒ کی رحلت ہوگئی، 1956 میں اُس وقت کے وزیراعظم چوہدری محمد علی نے اُن کے کام سے بہت استفادہ کیا اور کچھ ترامیم کرکے ملک کو ایک نیا جمہوری آئین دیا، جسے ایوب خان نے مارشل لا لگاکر آگ لگادی۔ 1949 میں محمد اسد نے وزارت خارجہ میں ملازمت اختیار کرلی اور انہیں اقوام متحدہ میں پاکستان کا نمائندہ مقرر کردیا گیا، وہاں اُن کی ملاقات ایک پولش امریکن خاتون ”پولا“ سے ہوئی، جس سے انہوں نے تیسری شادی کی لیکن جب اُن کی بیوی کی پاکستانی شہریت کے لیے درخواست مسترد ہوگئی تو وہ دل برداشتہ ہوکر نیویارک میں مقیم ہوگئے۔ 1983 میں جنرل ضیاء الحق نے انہیں واپس پاکستان بلوایا، اُن کی اہلیہ کو پاکستانی شہریت عطا کی۔ 1992 میں وہ اسپین منتقل ہوگئے، جہاں انہوں نے زندگی کے آخری ایام گزارے، وہیں اسی برس 20 فروری کو محمد اسد کی رحلت ہوئی۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔