کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا تو نے؟
نوجوانی کی عمرانسان کی زندگی کا قوی ترین دور ہوتا ہے۔ بلاشبہ نوجوان ہی امت مسلمہ کا قیمتی سرمایہ ہے۔ با ہمت، باشعور،متحرک، پرجوش اور پر عزم نوجوان ہر زمانے میں اسلامی انقلاب کے نقیب رہے ہیں۔
وہ قومیں خوش نصیب ہوتی ہیں جن کے نوجوان فولادی ہمت اور بلند عز و استقلال کے مالک ہوتے ہیں۔ کامیابی ہمیشہ ان قوموں کا مقدر ہوتی ہے جن کے نوجوان مشکلات سے گھبرانے کے بجائے دلیری سے مقابلہ کرنے کا ہنر جانتے ہوں جوانی وہ عرصہ حیات ہے کہ جس میں ہمتیں جوان اور حوصلے بلند ہوتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ انبیاء و رسل اور ہر دو کے مصلحین کی پکار پر نوجوانوں نے ہی سب سے زیادہ توجہ دی۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اسلام پسند نوجوانوں کے تذکرے ملتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اصحاب الکہف کے بارے میں فرمایا!
”وہ چند نوجوان تھے جو اپنے پروردگار پر ایمان لائے اور ہم نے انہیں مزید رہنمائی بخشی اور ہم نے ان کے دلوں کو اس وقت مضبوط کر دیا جب انہوں نے کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ: ہمارا رب تو وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے ہم اس کے سوا کسی اور کو نہیں پکاریں گے اگر ہم ایسا کریں گے تو یہ ایک بعید از عقل بات ہوگی۔ (148)
یہ وہ نوجوان تھے جنہوں نے وقت کے ظالم حکمران کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر رب العالمین پر ایمان لا کر حق پرستی کا اعلان کیا۔ ان چند نوجوانوں نے اپنے زمانے میں جو کردار ادا کیا وہ تمام نوجوانوں کے لئے نمونہ عمل ہے۔
چنانچہ اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی جوانی کے متعلق چند روایات آئی ہیں کیوں کہ اسلام میں نوجوانوں کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ جوانی ایک عظیم نعمت ہے اور قیامت کے دن اسی جوانی کے بارے میں خصوصی سوال کیا جائے گأ۔ حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”قیامت کے دن انسان کے قدم اپنی جگہ سے ہٹ نہ سکیں گے یہاں تک کہ اس سے پانچ باتوں کے بارے میں سوال نہ کرلیا جائے۔ عمر کن کاموں میں گنوائی؟ جوانی کی توانائی کہاں صرف کی؟ مال کہاں سے کمایا؟ اور کہاں خرچ کیا؟ جو علم حاصل کیا اس پر کہاں تک عمل کیا؟ (ترمذی)
لیکن آج کے نوجوانوں کو دیکھ کر بڑا افسوس ہوتا ہے کہ آج کے مسلم نوجوان کہاں کھڑے ہیں۔۔ ان کے مشاغل کیا ہیں؟ ان کے شوق کیا ہیں۔ آج کے نوجوان ہمیں راستوں میں گھومتے ہوئے، دوستوں میں آوارہ گردی کرتے ہوئے، فیس بک اور واٹس ایپ پر خود نمائی کرتے ہوئے مست نظر آتے ہیں۔ اس بے راہ روی نے نوجوانوں کی زندگی سے ایمان چھین لیا ہے۔ ہر نوجوان سوشل میڈیا پر اپنی خوبصورتی کے کمالات بکھیرنے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے۔
ایسے نوجوانوں پر جو نماز فجر تک سوتے رہتے ہیں۔ صبح بارہ بجے بیدار ہوتے ہیں، دوپہر 2 بجے ناشتے سے فارغ ہوتے ہیں، شام 4 بجے گھر سے نکلتے ہیں اور رات گئے تک آوارہ گردی کرتے ہیں۔ فیس بک اور واٹس ایپ پر اپنی تصویروں کی نمائش کرتے ہیں۔
نہ بے باکی، نہ بیداری، نہ ہوشیاری
جوانی کتنی شرمندہ ہے آکر نوجوانوں میں
ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ شیطان نوجوانوں کے ساتھ بڑی سخت دشمنی رکھتا ہے وہ نوجوانوں کو اہل باطل کے قافلے میں شامل کر کے جہنم کے راستے پر ڈالنا چاہتا ہے۔ لہٰذا مسلم نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے مقصدزندگی کو سمجھیں کیوں کہ انہیں علم نہیں کہ ملتِ اسلامیہ سے تعلق ہونے کی حیثیت سے ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ وہ جانتے ہی نہیں کہ موجودہ حالات میں ان کے لئے کیا صحیح ہے اور کیا غلط؟
کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا تو نے؟
وہ کیا گردوں تھا؟تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
آج کا مسلم نوجوان اپنی شناخت کی تلاش میں سرگرداں ہے سب سے بڑا چیلنج آج کے دور میں مسلم نوجوان کے لئے یہی ہے کہ اسے اپنے آپ کی پہچان نہیں ہو رہی ہے اور یہ پہچان اسے صرف اسی صورت میں حاصل ہو سکے گی جب وہ قرآن و سنت کے ساتھ اپنا تعلق جوڑیں گے۔ صحابہ کرام ؓ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی زندگی گزاریں، قرآن و سنت کو اپنا معیار بنائیں، اپنی جوانی کو ہمیشہ بے داغ رکھیں تاکہ دنیا و آخرت میں کامیابی آپ کا مقدر بن سکے۔
وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا
شباب جس کا ہے بے داغ ضرب ہے کاری